الفا اور بِیٹا ’’ڈِی کے‘‘ اور کاربن ڈیٹِنگ کا تعارف۔۔۔۔۔ادریس آزاد

الفا اور بِیٹا ’’ڈِی کے‘‘ اور کاربن ڈیٹِنگ کا تعارف

26 مئی 2020

بات یہ ہے کہ کبھی کبھار دو پروٹانوں اور دونیوٹرانوں پر مشتمل ایک ٹیم کو باہر خلا میں بھیجنے کا فیصلہ کیا جاتاہے تو پورے نیوکلیس میں انتہائی پرتجسس ماحول ہوتاہے۔ کیونکہ چارلوگوں کی اِس ٹیم کے چلے جانے کے بعد پیچھے موجود نیوکلیس پہلے والا نیوکلیس نہیں رہتا۔ یہ اس کی زندگی بدل دینے والا موقع ہوتاہے اس لیے بڑے اہتمام سے منایا جاتاہے۔ اس موقعے کو کیمسٹری کی زبان میں ’’الفا ڈِیکے‘‘ کہتے ہیں۔الفاڈِیکے یہ ہے کہ کسی ایٹم کے نیوکلیس سے دو پروٹان اور دو نیوٹران نکل جائیں۔ لیکن اگر ہم پیریاڈِک ٹیبل (Periodic Table) پرغور کریں تو دوپروٹانوں اور دو نیوٹرانوں پر مشتمل ایک پورا الگ سے ایٹم بھی موجود ہے، جسے ہیلیم کا ایٹم کہتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کسی بڑے نیوکلیس سے جب چارلوگوں کی یہ ٹیم ہیلیم کا ایٹم بن کر برآمد ہوتی ہے تو اس ایٹم کے گرد گردش کرنے والے الیکٹران کہاں سے آتے ہیں؟ کیونکہ دونیوٹرانوں اور دو پروٹانوں کی وجہ سے وہ ایٹم ہیلیم کا ایٹم نہیں بلکہ ہیلیم کا آئن کہلاتاہے۔ اب چونکہ ہیلیم کے کسی آئن میں تیزی کے ساتھ پورا ایٹم بن جانے کی صلاحیت ہے اس لیے وہ جلد ہی کھلی فضا سے دو الیکٹران پکڑ کر اپنے ساتھ ملا لیتاہے۔

ویسے بائی دہ وے، جس نیوکلیس سے ہیلیم کا وہ آئن برآمد ہوتاہے اس کے اپنے الیکٹران بھی تو فی الفور کم ہوجاتے ہیں؟ بھلا کیسے؟ وہ ایسے کہ کسی نیوکلیس میں جتنے پروٹان ہوتے ہیں بالکل اُتنے ہی الیکٹران اس کے مداروں میں گردش کے لیے بھی درکار ہوتے ہیں۔اب چونکہ ہیلیم کے آئن کے ساتھ دو پروٹان بھی نیوکلیس سے نکل گئے تھے اس لیے دو الیکٹران اضافی ہوجاتے ہیں۔ اور یوں ایسا ہونا قطعی بعید نہیں ہوتا کہ وہی دو الیکٹران ہی نیوکلیس سے نکلنے والے ہیلیم کے آئن کے ساتھ ہولیں۔

الفا ڈِی کے کی ایک مثال دیکھتے ہیں،

مثال کے طور پر ہمارے پاس یورینیم 238 کا ایک ایٹم ہے جس کا ایٹامک نمبر 92 ہے۔ بانوے ایٹامِک نمبر سے ہمیں یہ پتہ چل گیا کہ یورینیم میں بانوے الیکٹران گردش کررہےہیں۔ اب ہم جانتےہیں کہ جتنے الیکٹران ہوں اتنے ہی پروٹان بھی ہوتے ہیں۔ چنانچہ یورینیم کے 92 پروٹانوں میں سے دو پروٹان اور دونیوٹران اگر خارج ہوجائینگے یعنی ہیلیم کا ایک آئن اگر خارج ہوجائے گا تو پیچھے پروٹانوں کی تعداد 92 کی بجائے اب 90 رہ جائےگی۔ پروٹانوں کی اِس نئی تعداد کی وجہ سے یہ نیوکلیس اب یورینیم کا نیوکلیس نہیں رہیگا بلکہ تھوریم کا نیوکلیس بن جائے گا کیونکہ تھوریم کے پروٹانوں کی تعداد 90 ہوتی ہے۔اِسی طرح تھوریم کے الیکٹرانوں کی تعداد بھی نوّے ہوتی ہے۔

کسی بھی ایٹم کے نیوٹرانوں کی تعداد بدلنے سے عنصر نہیں بدلتا۔ صرف پروٹانوں کی تعداد بدلنے سے ایٹم بدلتاہے۔ نیوٹرانوں کی تعداد بدلنے سے البتہ اُس ایٹم کا آئسوٹوپ بدل جاتاہے۔ آئسوٹوپ کا مطلب ہے، یہ ایٹم ہے تو اسی عنصر کا لیکن اُسی عنصر کا یہ ایٹم اپنے باقی بھائیوں سے قدرے بھاری یا ہلکا ہے۔

مثال کے طور پر ہائیڈروجن جو سب سے چھوٹا ایٹم ہے، تین آئسوٹوپس والا ایٹم ہے۔ پروٹیم، ڈیوٹریم اور ٹریٹیم۔ یعنی ہائیڈروجن کے ایک ایٹم کی شکل یہ ہے کہ اس کے نیوکلیس میں ایک پروٹان اورباہر فقط ایک الیکٹران ہوتاہے جبکہ اس میں کوئی نیوٹران نہیں ہوتا۔ ہائیڈروجن کے اس ایٹم کو پروٹیم کہتے ہیں۔ اسی طرح ہائیڈروجن کا وہ ایٹم جس میں ایک پروٹان کے ساتھ ایک نیوٹران کا بھی اضافہ ہوجاتاہے ، ڈیوٹریم آئسوٹوپ کہلاتاہے اور اگر ایک پروٹان کے ساتھ دونیوٹران ہوں تو وہ ہائیڈروجن کا ٹریٹیم آئیسوٹوپ کہلاتاہے لیکن اِن تینوں صورتوں میں ایٹم رہتاہائیڈروجن کا ہی ایٹم ہے کیونکہ اس کے پروٹانوں کی تعداد فقط ایک ہے اور ایک پروٹان والا ایٹم صرف ہائیڈروجن کا ہی ہوسکتاہے کیونکہ یہ پروٹانوں کی تعداد ہی ہے جو کسی ایٹم کو ایک نام دیتی اور اسے کسی خاص عنصر یعنی ایلیمنٹ کا ایٹم بناتی ہے۔

الفا ڈِیکے کی طرح ایک بِیٹا ڈیکے بھی ہوتاہے۔ بِیٹا ڈِیکے میں دو دو پروٹان اور دو دو نیوٹران خارج نہیں ہوتے۔ بلکہ یہ بالکل مختلف عمل ہے۔ اس میں نیوکلیس میں سے ایک الیکٹران یا اینٹی الیکٹران یعنی پازیٹران برآمد ہوتاہے۔ دراصل ہم جانتےہیں کہ نیوٹران ہوں یا پروٹان وہ خود مزید چھوٹے ذرات کوارکس سے مل کر بنے ہوئے ہیں۔ ہرنیوٹران اورہر پروٹان میں تین تین کوارکس ہوتے ہیں۔ کوئی پروٹان اس لیے پروٹان کہلاتاہے کہ اس میں دو ’’اَپ کوارکس‘‘ اور ایک ’’ڈاؤن کوارک‘‘ ہوتاہے۔ اسی طرح کوئی نیوٹران اسلیے نیوٹران کہلاتا ہے کہ اس میں بالکل برعکس معاملہ ہے یعنی اُس میں دو ’’ڈاؤن کوارکس‘‘ اور ایک ’’اَپ کوارک‘‘ پایا جاتاہے۔ چنانچہ جب کسی نیوٹران میں سے ایک چارج کم ہوجاتاہے تو اس کا ایک ڈاؤن کوارک اچانک اپ کوارک مین تبدیل ہوجاتاہے۔ اور اس طرح اس میں اچانک دو اپ کوارک اور ایک ڈاؤن کوارک پیدا ہوجانے کی وجہ سے وہ مزید نیوٹران نہیں رہتا بلکہ پروٹان بن جاتاہے۔

نیوکلیس میں سے الیکٹران کا اخراج حیرت کی بات ہے۔ لیکن ایسا ہوتاہے۔ یہی قدرت ہے۔ ایک اپ کوارک کا ڈاؤن بن جانا یا ایک ڈاؤن کوارک کا اپ بن جانا ہی بِیٹا ڈِیکے ہے۔ سو نیوکلیس میں سے جب ایک الیکٹران برآمد ہوتاہے تو پیچھے کیا ہوتاہے۔ دراصل واقع یوں ہے کہ جب کسی نیوکلیس میں موجود پروٹانوں اور نیوٹرانوں کے درمیان تعداد کا جھگڑا یا ووٹنگ کے لیے کوئی سیاسی اِشُو پیدا ہوجائے تو وہ اپنے کسی ایک ذرّے کی نوع تبدیل کرکے اس تعداد کے مسئلے کو حل کرتے ہیں۔ یعنی اگر ایک ایٹم میں چھ پروٹان اور آٹھ نیوٹران ہیں تو کل کتنے ہوئے؟ چودہ۔ اب اگر ایک پروٹان کسی طرح تبدیل ہوکر نیوٹران بن جائے تو کیا ہوگا؟ پروٹانوں کی تعداد یقیناً کم ہوکر چھ کی بجائے پانچ رہ جائے گی جبکہ نیوٹرانوں کی تعدا جو پہلے ہی زیادہ یعنی آٹھ تھی، اب اور بڑھ کر نوہوجائے گی۔ اِسی طرح اگر ایک نیوٹران بدل کر کسی طرح پروٹان بن جائے تو کیا ہوگا؟ نیوٹرانوں کی تعدا کم ہوکر آٹھ سے سات رہ جائے گی اور پروٹانوں کی تعداد بڑھ کر چھ سے سات ہوجائے گی۔ یہ پروٹان کیا واقعی نیوٹرانوں میں بدل جاتے ہیں یا نیوٹران پروٹانوں میں؟ یقیناً ۔ کیونکہ ہردونوں صورت میں نیوکلیس سے ایک الیکٹران یا ایک پازیٹران برآمد ہوتاہے۔ اگر کوئی نیوٹران اپنی جُون بدلے تو وہ ایک عدد الیکٹران خارج کرکے خود کو پروٹان بنالیتاہے۔

اس بات کو یاد رکھنے کا ایک دیسی طریقہ بھی ہے۔ الیکٹران منفی چارج والا ذرّہ ہے۔ پروٹان مثبت چارج والا ذرّہ ہے۔ جبکہ نیوٹران پر کوئی چارج نہیں ہوتا۔ اب یاد رکھناہے تو یوں تصور مرتب کیا جائے۔ نیوٹران چونکہ کسی اچھے یا برے کام میں حصہ نہیں لیتے، اسی لیے نیوٹرل ہوتےہیں اور نیوٹران کہلاتےہیں۔ لیکن ایک نیوٹران فیصلہ کرتاہے کہ میں آئندہ اچھے یعنی مثبت کاموں میں حصہ لیا کرونگا تو وہ اپنے اندر سے ایک منفی ذرّہ نکال باہر پھینکتا ہے یعنی وہ ایک الیکٹران نکال دیتاہے جو منفی چارج والا ذرّہ ہے اورخود پروٹان میں تبدیل ہوجاتاہے۔ اسی طرح اگر مثبت چارج والا ایک پروٹان ، نیوٹرانوں کی کسی لڑکی کے عشق میں مبتلا ہوکر اپنا مثبت کام چھوڑدینا چاہے اور نیوٹران بننا چاہے تو اُسے اپنے اندر سے ایک عدد مثبت چارج والا ذرّہ یعنی پازیٹران خارج کرنا پڑتاہے۔ اس طرح وہ پروٹان سے نیوٹران میں تبدیل ہوجاتاہے۔ اس عمل کو بِیٹا ڈیکے کہتےہیں۔ جب کوئی پروٹان اپنے اندر سے ایک مثبت ذرّہ باہر پھینک دے تو ہم ایسے ڈِیکے کو بِیٹا پلس ڈِیکے کہتے ہیں ۔ اسی طرح جب کوئی نیوٹران اپنے اندر سے ایک منفی چارج والا ذرّہ نکال کر باہر پھینک دے تو اس عمل کو ہم بِیٹا مائنس ڈِیکے کہتے ہیں۔

کاربن کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ کاربن کے نیوکلیس میں چھ پروٹان ہوتے ہیں۔اسی لیے کاربن کے چھ ہی الیکٹران ہوتےہیں۔لیکن کاربن کے بھی آئسوٹوپس ہیں یعنی کاربن کے بھی ایسے ایٹم ہیں جن میں نیوٹرانوں کی تعداد بدلتی رہتی ہے۔ مثلاً کاربن فورٹین بہت مشہور ہے۔ اس میں پروٹان اور الیکٹران تو ظاہر ہے چھ چھ ہی ہونگے تبھی تو وہ کاربن کا ایٹم کہلائے گا لیکن اس میں نیوٹرانوں کی تعداد آٹھ ہوگی۔ اور یوں وہ کاربن فورٹین کہلائے گا یعنی کاربن کا قدرے بھاری ایٹم۔ کاربن فورٹین میں بِیٹا ڈیکے واقع ہوتاہے۔یعنی کاربن فورٹین کے نیوکلیس میں اگر کوئی نیوٹران اپنے آپ کو پروٹان میں بدل دے تو کیا ہوگا؟ نیوکلیس میں پروٹانوں کی تعداد بدل جائےگی۔ پہلے نیوکلیس میں چھ پروٹان تھے اب سات ہوجائینگے کیونکہ ایک عدد نیوٹران نے خود کو بدل کر پروٹان بنالیا۔ سات پروٹان ہوجانے کی وجہ سے پورا ایٹم ہی کاربن کا نہ رہے گا کیونکہ وہ کاربن کا ایٹم تھا تو فقط چھ پروٹانوں کی وجہ سے۔ اب وہ نائٹروجن فورٹین کا ایٹم بن جائے گا۔

اسی کاربن فورٹین کے بیٹا ڈیکے کی وجہ سے ہم کاربن ڈیٹنگ کرتے ہیں اور پرانی چیزوں کی ٹھیک ٹھیک تاریخیں معلوم کرتے ہیں۔ کیونکہ کاربن فورٹین ایک ریڈیو ایکٹو ایلمنٹ ہے۔ ریڈیوایکٹو ایلیمنٹ اس عنصر کو کہتے ہیں جو یونہی پڑا پڑا کبھار کبھار ’’ڈِیکے‘‘ کے عمل سے گزرتارہے۔ ایسے اور بھی بہت سے عناصر ہیں۔ کاربن چونکہ زمین پر بہت زیادہ مقدار میں موجود ہے اس لیے لگ بھگ ہرشئے میں پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی شئے کی اصل تاریخیں معلوم کرنے کے لیے ہم کاربن ڈیٹنگ کرتے ہیں۔

کاربن ڈیٹنگ اس طرح ہوتی ہے کہ کسی بھی شئے میں موجود کاربن فورٹین کے ایٹموں کی مقدار کو دیکھا جاتاہے اور پھر اسی شئے میں موجود نائٹروجن فورٹین کے ایٹموں کی مقدار کو بھی دیکھاجاتاہے۔ فرض کریں ہمارے پاس اگر دس گرام کاربن فورٹین ہو تو اور پانچ ہزار سات سو تیس سال تک پڑی رہے تو اس میں سے آدھی بِیٹا ڈِی کے کی وجہ سے نائٹروجن فورٹین میں تبدیل ہوچکی ہوگی۔ 5730 سال کاربن فورٹین کی ہالف لائف ہے۔ سائنسدانوں کو تمام ریڈیوایکٹو ایلیمنٹس کی ہالف لائیوز(نصف حیات) معلوم ہے۔ اس لیے وہ حساب لگا لیتےہیں اور جان لیتے ہیں کہ کوئی شئے کب سے پڑی ہوئی ہے اور کس حال میں پڑی ہوئی ہے۔

ادریس آزاد