غیر یقینیت کا قانون – ادریس آزاد

غیر یقینیت کا قانون – ادریس آزاد

8فروری  2017(یہ مضمون "دلیل ” پر شائع ہو چکا ہے، ادارہ دلیل کے شکریہ کے ساتھ یہاں شائع کیا جا رہا ہے)

قدیم و جدید فزکس کی پوری تاریخ میں اس جیسا حیران کر دینے والا کوئی ایک قانون بھی موجود نہیں۔ کیمسٹری میں البتہ پانی کی فطرت، نقطۂ کھولاؤ اور انجماد پر اس کے مختلف رویے کچھ عرصہ پہلے تک مجھے یوں لگتا تھا، جیسے پانی کوئی جاندار مخلوق ہے۔ بالکل اِسی طرح کبھی کبھی لگتاہے کہ الیکٹران بھی شاید سیانے ہیں۔ کم از کم ہم سے تو سیانے ہیں۔ بظاہر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مادے کے چھوٹے ذرات کو پتہ چل جاتا ہے کہ اب ان کی پیمائش کی جا رہی ہے اور وہ اپنا طرزِ عمل بدل دیتے ہیں۔ خیر! یہ بات تو میں نے یونہی ضمنی طور پر لکھ دی ہے۔ ہمارا ٹاپک ہے غیر یقینیت کا قانون (ہائزن برگ کا اَن سرٹینٹی پرنسپل)۔ میں ہمیشہ اس قانون کے نام پر سٹپٹا جاتا ہوں۔ ایک اٹل قانون ہونے کے باوجود اس کا نام ہے ’’غیر یقینیت کا قانون‘‘۔ جبکہ قانون کہتے ہی اس کو ہیں جو سو فیصد یقینی ہو۔ ذرا سی غیر یقینیت موجود ہو تو کوئی بھی نظریہ مفروضہ کہلا سکتا ہے، قانون نہیں۔ یہی سائنس کا اپنا اصول ہے۔ لیکن ہائزن برگ نے غیر یقینیت کا قانون دریافت کیا ہے۔ دراصل ہائزن برگ نے یہ ثابت کیا کہ ’’قدرت کا ایک مظہر ایسا بھی ہے جس میں غیریقینیت پائی جاتی ہے‘‘۔ یہ ہے اِس قانون کے نام کی وجہ۔ یعنی بظاہر یہ ایک سیلف کینسلنگ ٹرم ہے لیکن جس انداز میں اسے استعمال کیا گیا ہے، یہ بے معنی یا سیلف کینسلنگ نہیں رہ جاتی۔ قدرت یا فطرت کے ہر مظہر کو ٹھیک ٹھیک بیان کرنے اور اس سے متعلق پیش گوئی کی اہلیت کا نام سائنس ہے، لیکن اگر کسی مظہرِ قدرت میں یہ خاصیت پائی جائے کہ وہ ہر بار نئے رنگ اور نئے روپ میں نمودار ہو۔ اتنا متنوع نمودار ہو کہ اُس کے بارے میں پیش گوئی نہ کی جاسکے تو ہم کہیں گے، اس مظہرِ فطرت میں غیریقینیت ہے۔ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ کب کون سا رویّہ ظاہر ہوگا۔ ہائزن برگ نے ایسا ہی مظہر دریافت کیا جس کا علم ہائزن برگ کا غیر یقینییت کا قانون کہلایا۔ ہم جوں جوں اس قانون کے بارے میں جانتے جاتے ہیں، ہماری حیرت دوچند ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس قانون کو اِس قانون کے بانی ’ہائزن برگ‘ کے نام پر ’’ہائزن برگ اَن سرٹینٹی پرنسپل‘‘ کہا جاتا ہے۔

اِس سے پہلے کہ ہم ’’اَن سرٹینٹی پرنسپل‘‘ کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ میں چاہتا ہوں کہ کلاسیکل فزکس سے ایک مثال کے ذریعے پوزیشن اور مومینٹم والی مشکل بات کو آسان کر کے پہلے دہرا لیا جائے۔
فرض کریں آپ ایک سڑک کے کنارے کھڑے ہیں، اور سڑک پر سے کئی گاڑیاں گزر رہی ہیں۔ آپ ایک کار کو غور سے دیکھنے لگتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اس کائنات میں جو آبجیکٹس ہمیں نظر آتے ہیں، وہ اِس لیے نظر آتے ہیں کہ روشنی کی شعاع ان سے ٹکرا کر ہماری آنکھوں تک آتی ہے۔ ہم جب کار پر نظر جماتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ کار سڑک پر کسی نہ کسی مقام پر موجود ہوتی ہے۔ اِسے کہتے ہیں کار کی پوزیشن۔ اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ ہر مقام پر ایک خاص ولاسٹی یعنی کمیت (ماس) اور ولاسٹی کے ساتھ موجود ہوتی ہے۔ اسے کہتے ہیں کار کا مومینٹم۔ اگر ہم اُس کار کی ویڈیو بنائیں اور ویڈیوکو بے شمار رُکی ہوئی (Still) تصویروں میں تقسیم کر دیں تو ہم کلاسیکل فزکس کی رُو سے بآسانی بتا سکتے ہیں کہ ہر تصویر میں کار جس بھی نقطے پر رُکی ہوئی محسوس ہو رہی ہے، اس نقطے پر اِس کا مومینٹم اتنا اتنا تھا۔ مثال کے طور پر ہم بتاسکتے ہیں کہ اس کا مومینٹم تصویر نمبر بیالیس پر 200 Kgm/s تھا اور تصویر نمبر دو سو ستر پر 359 Kgm/s، وغیرہ وغیرہ۔ چونکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ تصاویر سڑک پر ایک خاص مقام کی ہیں، اس لیے اب ہم دونوں چیزیں ایک ہی وقت میں جانتے ہیں۔ یعنی کار کی پوزیشن بھی اور اس کا مومینٹم بھی۔

یہاں لگے ہاتھوں ابتدائی فزکس کا ایک یہ اصول بھی سمجھتے چلتے ہیں۔ مومینٹم کیا ہے؟ کسی آبجیکٹ کا ماس (Mass) اور اُس کی ولاسٹی(رفتار+سمت) کے حاصل ضرب کو مومینٹم کہتے ہیں۔ عام قارئین کے لیے مزید آسان کرتا ہوں۔ فرض کریں ایک بہت چوڑی سڑک پر ایک موٹر سائیکل اور ایک ٹرک ساتھ ساتھ دوڑتے چلے جا رہے ہیں، اور دونوں کی سپیڈ برابر ہے۔ فرض کریں دونوں کی سپیڈ ایک سو کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ اب چونکہ وہ دونوں ایک ہی رفتار سے جا رہے ہیں، اس لیے ٹرک ڈرائیور اور موٹرسائیکل سوار ایک دوسرے کے لیے رُکے ہوئے ہیں، اور ایک دوسرے کو بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ دونوں کی رفتار تو بےشک برابر ہے لیکن دونوں کا مومینٹم برابر نہیں ہے۔ کیونکہ ٹرک کا ماس (Mass) بہت زیادہ ہے اور اُس کے مقابلے میں موٹرسائیکل کا ماس بہت کم ہے۔ اسی رفتار کے ساتھ اگر وہ ٹرک کسی مضبوط دیوار سے بھی ٹکرائے گا تو اسے ٹکڑے ٹکرے کردے گا، لیکن وہ موٹرسائیکل شاید کسی کمزور دیوار کو بھی نہ گرا سکے۔ دونوں کی رفتار سو کلومیٹر فی گھنٹہ تھی لیکن ٹرک کا ماس زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کا مومینٹم زیادہ تھا اور یوں اس کی طاقت زیادہ ہوگئی۔ مومینٹم کی مساوات یہ ہے،
P = mv
جبکہ P مومینٹم کی علامت ہے ، m ماس کی اور v ولاسٹی کی۔

کار کی مثال جو ہم نے پہلے اوپر دیکھی اُس میں کار ایک بڑا آبجیکٹ ہے، جو ہمیں کھلی آنکھوں سے، حتیٰ کہ عینک کے بغیر بھی نظر آجاتا ہے۔ لیکن جب بات آتی ہے ایٹم کے چھوٹے ذرات اور اُن کی حرکت کی تو کلاسیکل فزکس کے بہت سے اُصول وہاں کام کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ مثلاً ہم ایک الیکٹران کا مومینٹم اور پوزیشن ایک ہی وقت میں نہیں بتا سکتے۔ یہی بات ہے جسے ’’اَن سرٹینٹی پرنسپل‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کا تعلق آلات کے اچھا یا برا ہونے سے قطعا نہیں۔ یہ معاملہ ہی مختلف ہے۔ الیکٹران اتنا چھوٹا ذرّہ ہے کہ اُس سے ٹکرا کر ہماری آنکھوں تک آنے والی روشنی ہی اپنا پیغام بدل دیتی ہے۔ یعنی سڑک پر چلتی ہوئی کار سے ٹکرا کر ہم تک آنے والی روشنی تو شرافت سے بالکل وہی کر رہی تھی، جو وہ ہمیشہ سے کرتی ہے، یعنی ہماری آنکھ کے پردے پر کار کی الٹی تصویر بناتی ہے اور ہم جان جاتے ہیں کہ سامنے جو چیز ہے، وہ کار ہے اور وہ اِس وقت ’’سپیس‘‘ میں کس مقام پر موجود ہے، لیکن جب روشنی الیکٹران سے ٹکرا کر ہم تک اس بات کی خبر دینے کے لیے کہ الیکٹران اس وقت کہاں موجود ہے، آنے لگتی ہے تو پیچھے موجود الیکٹران اس عرصہ میں اپنی جگہ بدل چکا ہوتا ہے کیونکہ روشنی کا فوٹان اُس کے ساتھ ٹکرا کر ہماری طرف آیا ہے۔ ٹکرانے کی وجہ سے فوٹان نے اس کا مقام بدل دیا ہے۔

اس بات کو مزید دیسی زبان میں سمجھتے ہیں۔ فرض کریں ایک پارک میں بہت سے گیس بھرے غبارے اُڑ رہے ہیں، یا صابن ملے پانی سے بنائے گئے بلبلوں سے بچے کھیل رہے ہیں۔ اب یہ اُڑتے ہوئے غبارے اور یہ پانی کے بلبلے فضا میں جس جگہ موجود ہیں، وہاں وہ آپس میں ٹکرا بھی جاتے ہیں اور بلبلے ہیں تو ٹکرا کر ٹوٹ بھی جاتے ہیں۔ بلبلوں سے بلبلے اس لیے ٹکرا رہے ہیں کہ وہ جسامت کے اعتبار سے لگ بھگ ایک جتنے آبجیکٹس ہیں، کیونکہ چھوٹے بلبلے بھی بہت زیادہ چھوٹے نہیں ہیں۔ وہ بھی کھلی آنکھ سے نظر آرہے ہیں۔ اس لیے کافی بڑے ہیں۔ اب تصور کریں کہ ان بلبلوں یا غباروں کو ہم نے کسی طرح بہت چھوٹا کر دیا ہے۔ یا ان کی جگہ گیندیں سوچ لیں۔ فرض کریں کہ ایک گیند کو ہم نے بہت زیادہ چھوٹا کر لیا ہے۔ اتنا چھوٹا، اتنا چھوٹا کہ اُسے ایک الیکٹران جتنا چھوٹا کر دیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ الیکٹران مادے کے پارٹیکلز ہیں اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ فوٹان روشنی کے پارٹیکلز ہیں۔ چنانچہ جب ہم اُس گیند کو جو اب ایک الیکٹران جتنی چھوٹی ہوگئی ہے، اپنے کمرے میں چھوڑیں گے تو وہ کمرے میں اُڑنے لگے گی۔ فرض کریں ہمارے کمرے میں بلب جل رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمارا کمرہ اِس وقت روشنی کے ذرات یعنی فوٹانوں سے بھرا ہوا ہے، تو جب وہ گیند جو ایک الیکٹران جتنی چھوٹی ہوچکی ہے، کمرے میں پرواز کرنے لگے گی تو بلبلوں والے اُصول کے مطابق اُس گیند کے ساتھ کس کو ٹکرانا چاہیے؟ یعنی وہ کون سے ذرات ہیں جو ہماری گیند کے ساتھ ٹکرائیں گے؟ یقیناً وہ ہمارے کمرے میں لگے بلب سے آنے والی روشنی کے فوٹانز ہیں، اور فوٹانز ہمیں کوئی شے دکھانے کا واحد ذریعہ ہیں کیونکہ یہ روشنی کے ذرات ہیں۔ اگر اس الیکٹران کو دیکھنے کے لیے ہم روشنی استعمال نہیں کرتے تو ظاہر ہے وہاں اندھیرا ہوگا اور ہم کچھ دیکھ نہیں پائیں گے۔ چنانچہ واحد دیکھنے کا عمل ہی ایسا ہے جو الیکٹران کی پوزیشن یا مومینٹم میں تبدیلی کا باعث بن جاتا ہے۔ یہ سب کچھ محض اس تعلق کی وجہ سے ہوتا ہے جو فطرت میں ’’ویو Wave‘‘ اور پارٹیکل کے درمیان پایا جاتا ہے۔
اُمید ہے اب میں نے معاملے کو قدرے آسان زبان میں بیان کر لیا ہے۔

خیر! جب ایک الیکٹران کے ساتھ کوئی فوٹان ٹکراتا ہے تو فوٹان کا مومینٹم الیکٹران میں منتقل ہو جاتا ہے۔ یہ بالکل اور بعینہ وہی مومینٹم ہے جو بلیئرڈ کھیلتے ہوئے ہم ملاحظہ کرتے ہیں۔ جب ایک بال دوسری بال کو لگتی ہے تو اپنی انرجی اُس میں منتقل کر دیتی ہے۔ اسی طرح جب ایک فوٹان کسی الیکٹران سے ٹکراتا ہے تو اپنی انرجی اسے منتقل کر دیتا ہے، اور وہ الیکٹران اب کسی بھی سمت میں اپنی پہلی رفتار سے زیادہ تیز رفتار کے ساتھ چل پڑتا ہے۔

مزے کی بات یہ کہ ہم انسان جو چیزوں کو دیکھتے ہی روشنی کی مدد سے ہیں، جیسا کہ ہم نے کار والی مثال میں روشنی کی مدد سے ہی کار کی پوزیشن کو جگہ جگہ نوٹ کیا، اس معاملے میں کیسے لاچار ہوجاتے ہیں کہ ہم اب الیکٹران کی پوزیشن کو اُس کار کی پوزیشن کی طرح کبھی نہیں نوٹ کرسکتے کیونکہ جس روشنی نے ہماری آنکھوں تک انفارمیشن پہنچانا تھی، وہ خود ہمارے زیر تجربہ الیکٹران کے ساتھ ٹکرا گئی ہے۔ ہماری آنکھوں تک اطلاع پہنچنے پر ہمیں پتہ چلنا تھا کہ الیکٹران کی پوزیشن کیا ہے لیکن اس سے پہلے ہی الیکٹران اپنی جگہ سے ہٹ چکا تھا۔

اچھا اب اِسے قدرے اکیڈمک طریقے سے پڑھتے ہیں۔ فرض کریں ایک وائٹ بورڈ پر ہم نے ایک دائرہ سا لگا کر ایک الیکٹران کو ظاہر کیا۔ پھر ہم نے کچھ ہی فاصلے پر ایک انسانی آنکھ اِس طرح بنائی کہ وہ الیکٹران کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اب بورڈ پر بنی اُس آنکھ کو وہ الیکٹران کیسے نظر آئے گا؟ اُصول یہ ہے کہ اس الیکٹران کے ساتھ کوئی چیز ٹکرائے گی اور وہ اُسے دیکھنے والی آنکھ تک جائے گی۔ اب فرض کریں کہ وہ چیز روشنی کا ایک ذرہ یعنی فوٹان ہے۔ اب ہم وائٹ بورڈ پر ایک فوٹان کی شبیہ بناتے ہیں جو الیکٹران کی طرف آ رہا ہے اور اس سے ٹکرائے گا اور باؤنس ہو کر بورڈ پر بنی آنکھ کی طرف چلا جائے گا۔ اس طرح اس آنکھ کو پہلی بار پتہ چلے گا کہ الیکٹران کہاں موجود ہے، لیکن فی الحقیقت ایسا ہوتا نہیں ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ وہ فوٹان جب الیکٹران سے ٹکراتا ہے تو الیکٹران اُس کی انرجی اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ اب یہ فوٹان کے مومینٹم پر منحصر ہے کہ وہ کتنی طاقت کے ساتھ آ رہا تھا۔ جونہی وہ الیکٹران کے ساتھ ٹکرایا، الیکٹران کے پہلے سےموجود مومینٹم میں اضافہ ہوگیا۔ اب الیکٹران کے پاس زیادہ توانائی ہے۔ وہ یقیناً اُسی وقت اپنی جگہ بدل لے گا، اور اس سے پہلے کہ فوٹان آنکھ تک پہنچ کر آنکھ کو یہ بتائے کہ الیکٹران ’’سپیس‘‘ میں کہاں واقع ہے، الیکٹران اپنی پوزیشن بدل چکا ہوگا۔ چنانچہ آنکھ کے لیے یہ اندازہ لگانا کہ الیکٹران کہاں ہو سکتا ہے، ناممکن ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نہیں جانتے فوٹان کس طرف سے آ کر اُس الیکٹران سے ٹکرا گیا۔ چنانچہ ٹھوکر کھانے کے بعد الیکٹران جب اپنی جگہ تبدیل کر لے گا تو وہ کہیں بھی ہو سکتا ہے۔ اُس کا کہیں بھی ہونا ہی اصل پریشانی کی بات ہے، یعنی اب ہم اس کی پوزیشن نہیں بتا سکتے۔ وہ اب ایک موج کی طرح ہے، کہیں بھی ہوسکتا ہے۔ وہ سپر پوزیشن پر موجود ہے۔ ہم ایک اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ ایک مخصوص ویو لینتھ یا اِس وائٹ بورڈ والی مثال کی رُو سے ایک مخصوص دائرے کے اندر کہیں بھی ہو سکتا ہے۔ ہم صرف اس کے کہیں بھی ہونے کے امکانات سے باخبر ہیں ۔ وہ فی الحقیقت کہاں ہے اس بات سے ہم آگاہ نہیں ہوسکتے۔

ہم وائٹ بورڈ پر الیکٹران کے اردگرد بہت سے تیر کے نشان اِس طرح بناتے ہیں کہ ہر تیر باہر کی طرف کو سفر کرتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ جہاں ہم نے چھوٹا سا الیکٹران ڈرا کیا ہے، وہاں سے چاروں طرف کو نکلتے ہوئے تیر ایک دائرے کی صورت ڈرا کریں گے۔ یہ دائرہ کتنا بڑا بنایا جانا چاہیے؟ اس بات کا تعلق فوٹان کے مومینٹم سے ہے۔ اگر اس نے زیادہ زور سے ٹھوکر ماری ہے، الیکٹران کو تو الیکٹران کا مومینٹم اُسے زیادہ دور تک لے جائے گا اور دائرہ بڑا بنے گا۔ جتنی ولاسٹی اُتنا بڑا دائرہ۔ جتنا بڑا دائرہ اتنی زیادہ پوزیشن کی مقدار میں اَن سرٹینٹی۔ جتنی اَن سرٹینٹی اتنے زیادہ امکانات۔

ہائزن برگ کو مادے کے چھوٹے ذرات کی اس فطرت کا علم ہوا تو اُس نے اپنے اصول کے لیے اپنی میتھ ڈیولپ کی، جو کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اس نے ایک مساوات تخلیق کی، جو غالباً آئن سٹائن کی E=MC2 کے بعد سب سے مشہور مساوات ہے۔
Δ X Δ P ≥ ħ /2
اس مساوات میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ڈیلٹا ایکس پوزیشن کی اَن سرٹینٹی کی علامت ہے۔ ڈیلٹا پی، مومینٹم کی اَن سرٹینٹی کی علامت ہے اور ان دونوں کا حاصل ضرب ایچ بار (ħ) کا نصف ہے یعنی ħ /2 ہے، جبکہ ایچ بار ħ سادہ الفاظ میں پلانک کے کانسٹینٹ ایچ (h)کو دو پائی (pi2) کے ساتھ تقسیم کیا گیا ہے۔ چونکہ پلانکیَن کانسٹینٹ کو دو پائی کے ساتھ تقسیم کیا گیا ہے اور اس سے ایچ بار اووَر(ħ /2) ٹُو حاصل ہواہے، تو ثابت ہوا کہ اصل میں یہ پلانکین کانسٹینٹ ایچ h کو فورپائی کے ساتھ تقسیم کیا گیاہے۔ یعنی اسے ہم h/4pi کی شکل میں بھی لکھ سکتے ہیں۔ چنانچہ مساوات ، Δ X Δ P ≥ ħ /2 میں Greater than کی علامت کے بائیں طرف موجود پوزیشن اور مومینٹم کی اَن سرٹینٹی ہمیشہ دائیں طرف موجود پلانک کانسٹینٹ کی ویلیو کے برابر یا اس سے زیادہ ہوگی۔

یہاں ریاضی سے اجتناب کرتے ہوئے ہم محض یہ کہنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ ہائزن برگ نے بالآخر یہ ثابت کیا کہ اگر ہم کسی مادی ذرّے کی پوزیشن کے بارے میں جان لیں تو ہم اس کے مومینٹم کے بارے میں نہیں جان سکتے اور اگر ہم کسی مادی ذرّے کے مومینٹم کے بارے میں جان لیں تو ہم اس کی پوزیشن کے بارے میں نہیں جان سکتے۔ اور اس کے بعد پھر وہ قیامت آئی کہ آج تک کوئی نہیں روک پایا۔ میری دانست میں کُل دنیا کا سارا ’’کے اوس‘‘ فزکس کے ایک قانون ’’پرنسپل آف اَن سرٹینٹی‘‘ سے شروع ہوتا ہے۔