نفسیات اور فزکس کے مشترکہ مسائل۔۔۔۔ادریس آزاد
(یہ مضمون 12 اپریل 2018 کو مضامین ڈاٹ کام پر شائع ہو چکا ہے، ادارہ مضامین ڈاٹ کام کے شکریہ کے ساتھ یہا ں شائع کیا جا رہا ہے)
سقراط کے نزدیک مطالعہ کا موضوع صرف انسان ہے۔ یہ کس قدر برعکس ہے اُس فکر کے جو قران میں بیان ہوئی۔
قران کے مطابق انسانی مطالعہ کے موضوعات میں چاند، سورج، ستاروں کی گردش، پھل ، پھول، درخت، دریا، پہاڑ، سمندر۔بالفاظ دگر فزکس، کیمسٹری، بیالوجی، جیالوجی، نفسیات وغیرھم وکلھم شامل ہیں۔
سقراط کی طرح اس کے شاگرد افلاطون کو بھی کائنات کی حقیقت سے انکار ہی رہا۔ اسے نفرت تھی اس کائنات کا علم حاصل کرنے سے، افلاطون نے لکھا، ’’مشہود کائنات کا علم حاصل کرنے سے اور کچھ تو کچھ ملتا نہیں، چند مفروضات کے سوا۔ اور وہ مفروضات بھی ایسے غیر قطعی، ناپختہ، بے بنیاد اور عارضی ثابت ہوتے ہیں‘‘۔ (افلاطون کی بات کا مفہوم)
چنانچہ یونانی فلسفہ و فکر کا مطمع ِ نظر کلّیات کا مطالعہ تھا۔ ایبسولیٹزم کے شیدائی یونانی استقرائی منطق (انڈکٹو لاجک) سے گھبراتے تھے۔
اگرچہ افلاطون کے شاگر ارسطو نے، جسے ہم بابائے لاجک کے نام سے جانتے ہیں، استخراجی (ڈیڈکٹو) منطق کے ساتھ استقرائی (انڈکٹو) منطق بھی دریافت کرلی تھی لیکن اس نے پھر استقرائی منطق کے لیے مزید کچھ نہ کیا۔
بقول علامہ اقبالؒ ، یہ اسلام تھا جس نے انڈکٹو لاجک کا آغاز کیا۔ اور جس سے سائنس کا آغاز ہوا اور آج دنیا کی تہذیب اس مقام پر پہنچ پائی جہاں ہے بشمول مغرب ٹائم اینڈ سپیس کے جدید نظریات، تقریباً تمام تر، سائنس کی مشقت سے ڈیولپ ہوئے ہیں نہ کہ فلسفہ کی۔
سٹیفن ہاکنگ نے اپنی کتاب "دی گرینڈ ڈیزائن” میں لکھا ہے کہ "فلسفہ کی موت واقع ہوچکی ہے”۔ اُس نے مزید یہ بھی کہا کہ "رینے ڈیکارٹ” فادر آف ماڈرن فلاسفی نہیں ہے بلکہ وہ پہلا ماڈرن سائنسدان ہے۔
سٹیفن ہاکنک کا یہ بیان درست نہیں ہے۔ اس میں کچھ شبہ نہیں کہ ٹائم اینڈ سپیس کے جدید نظریات کائنات کے بارے میں فلسفیوں کے نقطۂ نظر میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کا باعث بنے ہیں۔
لیکن اگر بنظر ِ غائر دیکھا جائے تو جدید فزکس اور بطور خاص تھیوریٹکل فزکس سائنس ہونے سے کہیں زیادہ فلسفہ ہے۔ اور جدید تھیوریٹکل فزکس کسی علم کے سائنس ہونے کی شرائط پر ہرگز پوری نہیں اُترتی کیونکہ کسی علم کے سائنس ہونے کی اوّلین شرط اُس میں حسی تجربے کا ملوث ہونا ہے۔
جبکہ جدید تھیوریٹکل فزکس میں حسی تجربہ برائے نام بھی ملوث نہیں۔ تمام تر نظریات کی بنیاد یا تو ریاضی ہے اور یا خالص فلسفہ۔
کائنات کی تشریح کے علوم کا فلسفیوں کے ہاتھ سے نکل کر فزسسٹس کے ہاتھ لگ جانے سے ایک اور بڑا نقصان جو ہوا ہے اور ہورہا ہے وہ یہ ہے کہ جدید فزکس نے دنیا بھر کے تمام علوم کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
بری طرح متاثر کیا ہے نہ کہ اچھی طرح۔ وہ اس لیے کہ محض حسی تجربے سے حاصل ہونے والے علوم کی غیر حتمیت بقول کانٹ ایک المیہ ہے۔
کیونکہ ہم حسی تجربے کی مدد سے حقیقت(رئیلٹی) کے محض ایک مختصر سے حصے کو جان سکتے ہیں۔ اس سے قبل ریشنلسٹ فلاسفی کی مدد سے دنیا بھر کے تمام تر نظام ہائے معیشت ہی نہ صرف وجود میں آئے بلکہ تمام تر سیاسی نظام، تمام مذاہب کی وضاحت، علم ِ نفسیات کی داغ بیل، کمپیوٹر کی ایجاد اور سب سے بڑھ کر خود جدید فزکس کی رہنمائی ہمیشہ اکیلے فلسفہ نے کی۔