کُوگل بلِٹزیا مصنوعی بلیک ہول۔۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد
کُوگل بلِٹزیا مصنوعی بلیک ہول۔۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد
3 دسمبر 2019 (یہ مضمون "مکالمہ” پر شائع ہو چکا ہے، ادارہ مکالمہ کے شکریہ کے ساتھ یہاں شائع کیا جا رہا ہے)
نظری طور پر ایک بلیک ہول تخلیق کرنا ممکن ہے۔یاد رہے کہ جب ہم اُردو میں ’’نظری طور پرایسا ممکن ہے‘‘ کہتےہیں تو اس کا مطلب ہوتاہے، ’’یہ تھیوریٹکلی پاسبل ہے‘‘۔
ماہرینِ فزکس کا کہنا ہے کہ ہم فقط روشنی کی شعاعوں سے ایک بلیک ہول کو اُصولی طورپر خودبناسکتے ہیں۔چنانچہ ایسے بلیک ہول کے لیے ایک لفظ استعمال کیا جاتاہے، ’’کُوگل بلِٹز‘‘ (Kugelblitz)۔
کُوگل بلِٹز جرمن زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے ’’روشنی کا گولا‘‘۔
اس سے پہلے کہ ہم اِس ہوم میڈ بلیک ہول یعنی کُوگل بلٹز کی بابت کچھ اور جانیں، ہم پہلے اصلی والے بلیک ہول یعنی قدرتی بلیک ہول کی ماہیت پر تھوڑی دیر غورکرتے ہیں۔
عام طور پر ایک بلیک ہول اُس وقت پیدا ہوتاہے جب بہت زیادہ مادہ کسی بہت ہی چھوٹی سی جگہ میں اس طرح اکھٹا ہوجاتاہے کہ ایٹمز ایٹمز میں دھنس جاتے ہیں یعنی اُس مادے کی کثافت بے پناہ بڑھ جاتی ہے۔
اگر مادہ اتنا زیادہ کثیف ہوجائے تو اُس کی سطح پر کششِ ثقل بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔اتنی زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ کوئی اور چیز تودرکنار روشنی بھی اُس کشش ثقل کے شکنجے سے فرار نہیں ہوسکتی۔
مثلاً اگر ہم زمین کو بلیک ہول میں تبدیل کرنا چاہیں تو زمین کے چھ ٹریلین ٹریلین کلوگرام مادے یعنی زمین پر موجود تمام پانی، چٹانیں اور دھاتوں کو آپس میں ایک دوسرے کے اندر دبانا ہوگا۔
انگریزی میں اس کے لیے جولفظ استعمال ہوتاہے، وہ ہے’’کمپریس کرنا‘‘۔ ہمیں زمین کے چھ ٹریلین ٹریلین مادے کو کمپریس کرنا ہوگا اور اتنا کمپریس کرنا ہوگا کہ زمین اپنے حجم میں چھوٹی ہوکر فقط سولہ ملی میٹر کی ایک باریک سی گولی(Sphere) بن جائے۔اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مادے کو کس سطح پر جاکر کمپریس کیا جائے تو وہ بلیک ہول میں تبدیل ہوجاتاہے۔
یہ وہ مقام ہے جب ایٹمز ایٹمز میں دھنس کر ٹوٹ جاتے ہیں اور پارٹیکلز کا تصور ہی سرے سے تبدیل ہوجاتاہے۔
آئن سٹائن نے ہمیں بتایا کہ ای اِز اِکول ٹُو ایم سی سکوئرڈ(E=mc^2)ہے۔
دوسرے الفاظ میں ایک چھوٹے سے ذرّے میں موجود توانائی اُس ذرّے کے ماس کو روشنی کی ولاسٹی کے مربع سے ضرب دینے کے بعد حاصل ہونے والے عدد جتنی ہوتی ہے۔یعنی ایک چھوٹے سے ذرّے میں بے پناہ توانائی ہوتی ہے۔
اور یوں ایٹم بم بنائے جانے کا اصل سبب یہی تصورِ توانائی تھا۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ توانائی بعض اوقات ماس یا مادے کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔اب ہم جانتے ہیں کہ روشنی کا کوئی ماس نہیں ہے لیکن اس میں انرجی ہے۔
یہاں سب سے پُرلطف بات یہ ہے کہ گریوٹی مادے اور توانائی کا فرق کرنے سے قاصر ہے۔آئن سٹائن کے بتانے پر اب ہم یہ جانتے ہیں کہ گریوٹی کے لیے مادے اور توانائی کا فرق کرنا ممکن نہیں۔یہی وجہ ہے کہ گریوٹی دونوں کے درمیان تمیز نہیں کرسکتی اور دونوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرتی ہے۔گریوٹی کی اِسی خوبی سے ایک دلچسپ امکان خودبخودنمودار ہوجاتاہے۔
ہم جانتے ہیں کہ ایک بلیک ہول بنانے کے لیے ہمیں مادے کی کچھ مقدار کو کسی بہت ہی چھوٹی سی جگہ میں ،بہت بُری طرح سے کمپریس کرنا ہوگا۔اور چونکہ گریوٹی روشنی کے ساتھ بھی ویسے ہی پیش آتی ہے جیسے مادے کے ساتھ چنانچہ ہم نظری طور پر مادے کی بجائے فقط روشنی کی شعاع سے ہی بلیک ہول بناسکتے ہیں۔
اِسی بلیک ہول کو کُوگل بلٹز(Kugelblitz) کہتے ہیں یعنی ’’روشنی کا گولا‘‘۔لیکن ایسا کہنا آسان ہے۔
ایسا کرنا ناممکن کے قریب مشکل ہے۔ وہ اس لیے کہ صرف روشنی سے بلیک ہول بنانے کے لیے ہمیں جس قدر روشنی درکار ہوگی وہ ہمارے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔کیونکہ اب ایسی صورت میں ہم آئن سٹائن کی مشہور مساوارت کو اُلٹاکرکے استعمال کرینگے یعنی ایم اِز اِکول ٹُو ای بٹہ سی سکوئرڈ (m=E/c^2)
کیونکہ پہلے ہم مادے کے ایک چھوٹے سے ذرّے کو پھاڑ کر اُس میں سےتوانائی نکال رہے تھے۔لیکن اب ہم اس منظر کو الٹارہے ہیں۔
ہم بے پناہ توانائی کو ایک جگہ جمع کرکے اُس میں سے مادے کا ایک چھوٹا سا ذرّہ پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
ایسا کرنے کے لیے ہمیں بے پناہ توانائی درکار ہوگی۔
مثلاً ہم نے تھوڑی دیر پہلے ایک فرضی بلیک ہول کے امکان پر غور کیا اور مثال کے طور پر یہ کہا کہ اگرسیّارۂ زمین کو بلیک میں تبدیل کرنا ہوتو زمین کا چھ ٹریلین ٹریلین کلوگرام مادہ کمپریس کرکے صرف سولہ ملی میٹر کی چھوٹی سی گولی میں بدلناہوگا۔
اگر ہم اتنا ہی چھوٹا بلیک ہول روشنی کی شعاعوں سے بنانا چاہیں تو ہمیں کتنی مقدار میں روشنی درکار ہوگی؟ ایسا بلیک ہول بنانے کے لیے ہمیں زمین کے چاروں طرف تین سوپچاس نُوری سال کے علاقہ میں موجو د ہرایک ستارےکی دس سال کے عرصہ تک کی تمام روشنی درکار ہوگی۔
اس بات کو مزید آسان کرنے کے لیے ہم ایک اندازہ پیش کرسکتے ہیں۔ فرض کریں ہمارے پاس پچاس ملین کلوگرام مادہ یعنی ٹائٹینک (Titanic) بحڑی بیڑے جتنا مادہ ہے اور ہم اُسے کمپریس کرکے اتنا چھوٹا کردیتے ہیں کہ وہ ایک پروٹان سے بھی آٹھ سو گنا چھوٹا ہوجاتاہے تو وہ ایک ننھا سا بلیک ہول ہوگا۔
یہ مقداریں ایسی ہیں کہ ہم بڑے آرام سے کہہ سکتے ہیں بلیک بنانا انسانی بس کی بات نہیں ہے۔ لیکن فرض کریں کہ اگر ایسا کرنا ممکن بھی ہوجائے تو چند اور مسائل ایسے ہیں جن کی وجہ سے بلیک ہول بنانا ناممکن کے قریب ہی رہتاہے۔
ایک کُوگل بلِٹز بنانے کے لیے ہمیں روشنی جب ایک جگہ جمع کرنی ہے تو وہ جگہ جہاں روشنی مرتکز ہورہی ہے اتنی گرم ہوجائے گی کہ حرارت کی وہ مقدار ہمارے تصور سے بھی ماورا ہے۔
یہ لگ بھگ اُتنی ہی حرارت ہوگی جتنی حرارت کائنات بنتے وقت یعنی بگ بینگ کے پہلے سیکنڈ میں موجود تھی۔اور ہم جانتے ہیں کہ اس سطح کی حرارت میں فزکس کے موجودہ قوانین ویسے بھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔فزکس کے قوانین سے ماورا ہوتے ہی کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کیا ہوگا۔
یہ بھی ممکن ہے کہ جتنی توانائی ہم سمجھ رہے ہیں کہ ہمیں درکار ہوگی، حرارت کی اُس سطح پر اُتنی توانائی درکار نہ ہو اور ایک بلیک بنانے کے لیے اُس سےسینکڑوں ملین کم توانائی درکار ہو۔ جب فزکس بدل گئی تو کچھ بھی ہوسکتاہے۔
غرض زمانۂ وسطیٰ کے مسلمان فقیہوں کی طرز پر ہمارے ماہرین ِ فزکس بھی جب امکانات پر غور کرتے ہیں تو پتہ نہیں کیا سے کیا سوچتے چلے جاتے ہیں۔ایسی ہی سوچوں کا نتیجہ یہ کُوگل بلٹز کا تصور ہے۔یہ مصنوعی بلیک ہول ہے جسے خود بنانے کاامکان بہرحال ہمیشہ موجود رہیگا۔
اور یہ بات تو ہم میں سے اکثر طلبہ جانتے ہیں کہ بلیک ہول کیا ہوتاہے؟
بلیک ہول کششِ ثقل کائنات کی ہرشئے کی کششِ ثقل سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلیک خودسے بڑی بڑی مادی چیزوں کو ایک سیکنڈ میں ہڑپ کرجاتاہے۔ایک فٹ بال کے گراؤنڈ جتنا بلیک ہول سیّارۂ زمین جتنے بڑے مادے کو ایک لقمے میں نگل سکتاہے۔اور تو اور بلیک ہول کے شکنجے سے روشنی کی شعاع بھی فرار نہیں ہوسکتی۔
روشنی کی شعاع بھی بلیک ہول میں جاکر فناہوجاتی ہے۔کائنات میں جہاں کہیں مادے کا دباؤ بڑھتا چلا جاتاہے بلیک ہول پیدا ہونے کے امکانات بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
ہرکہکشاں کے مرکز میں بےپناہ دباؤ کی وجہ سے بلیک ہولز ہیں جو اپنے آس پاس کے مادے اور توانائی کو تیزی کے ساتھ نگلتے جارہے ہیں۔سٹیفن ہاکنگ کے بقول ، ’’چونکہ بلیک ہول ہرطرح کی انفارمیشن کو نگلتے جارہے ہیں اس لیے یہ طے ہے کہ کائنات کی تمام انفارمیشن ایک دن فنا ہوجائے گی۔ جس سے ثابت ہوتاہے کہ نہ کوئی خدا ہے اور نہ ہی آخرت کا کوئی وجود‘‘.