کیا کبھی وقت میں سفر ممکن ہوپائےگا؟۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد

کیا کبھی وقت میں سفر ممکن ہوپائےگا؟۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد

15 جنوری 2020

ایک حقیقت جس کا بیان بہت ضروری ہے یہ ہے کہ کوپن ہیگن انٹرپریٹیشنز اور ہیوایورٹ کی انٹرپریٹیشن کو آپس میں کوئی علاقہ نہیں۔ ہیوایورٹ کی انٹرپریٹیشن تو شروع ہی اس جملے سے ہوتی ہے، ’’وٹ اِف ویوفنکشن نیورکولیپسز؟‘‘۔ یوں گویا ہیوایورٹ نے تو اپنے تھیسز کا آغاز ہی کوپن ہیگن انٹرپریٹیشن کے انکارسے کیا۔ کیونکہ کوپن ہیگن انٹرپریٹیشن میں آخر کو یہی نتیجہ اخذکیا گیا تھا کہ ’’اِٹ سِیمز دیٹ دہ ایکٹ آف میژرمینٹ کولیپسز دہ ویوفنکشن‘‘۔ اب آپ خود فرق دیکھ لیں! اُوپر میں نے ہیوایورٹ کا جملہ لکھا، جس سے ہیوایورٹ کا مقدمہ شروع ہورہاہے۔ وہ جملہ کیا تھا بھلا؟ ’’وٹ اِف ویو فنکشن نیورکولیپسز؟‘‘ دونوں جملوں کو ایک ساتھ پڑھیں! بالکل واضح ہے کہ دونوں تشریحات جداگانہ نتائج رکھتی ہیں۔ لیکن ہمارے دوست اتنے واضح فرق کو ہی نظرانداز نہیں کردیتے،آگے چل کر جب اِن تشریحات کے بیان کی نوبت آتی ہے تو دونوں کو آپس میں مدغم کرکے پیش کرتے ہیں۔

ایک نشانی جو فقط آسانی کے لیے ہے، ہالی وُوڈ کی فلمیں ہیں۔ ہالی وُوڈ کی ٹائم ٹریولنگ والی فلمیں جس موضوع پر سب سےزیادہ بنی ہیں وہ ہیوایورٹ کی تشریح ہے۔ ہیوایورٹ کی تشریح کیا ہے؟ وہ کہتاہے کہ کائنات ایک نہیں ہے۔ کائناتوں کی تعداد اُتنی ہے جتنی کہ امکانات کی تعداد ہے۔ کوئی سا ایک امکان ایک الگ کائنات کا ثبوت ہے۔ یہ ساری کائناتیں آپس میں متوازی ڈائمینشن میں واقع ہیں۔ یہاں ایک نکتہ سمجھنے کا ہے اور ہے بھی خاصا دلچسپ۔ کائناتوں کا ایک ہی ڈائمینشن میں متوازی ہونا بالکل اِس اینالوجی پر تصورکیا جاسکتاہے جیسے کسی کتاب کے اوراق ایک ہی ڈائمینشن میں ایک دوسرے کے متوازی ہوتے ہیں۔ یہاں مجھے اپنی ایک نظم کے مصرعے یاد آرہے ہیں جو میں بلاوجہ ہی لکھ دینا چاہتاہوں کیونکہ انہوں نے میرے قلم کی روانی میں خلل ڈالا،

کتابوں میں کیسے

ورق میں ورق دھنس کے رہتاہے اے باشعورو!

حضورو!

وہیں پرکہیں درمیاں

لفظ پھنس کر سسکتے رہے تو

معانی کہاں سراُٹھانے کے قابل رہیں گے

خیر! کتابوں کے اوراق کیسے متوازی ہوتے ہیں۔ ایک کتاب جلد میں ہوتی ہے۔ کتاب بند ہو تو ہم دیکھتے ہیں کہ تمام اوراق ایک دوسرے کے ساتھ متوازی حالت میں موجود ہیں۔ مثلاً فرض کریں کتاب کا درمیانی صفحہ 230 ہے، تو اس کے ساتھ دوصفحات 229 اور 231 ہونگے۔ یہ دونوں صفات درمیان والے صفحہ کے متوازی ہیں اور قریب ترین واقع ہیں۔ لیکن دُور دُور کے صفحات، مثلا صفحہ 14 یا صفحہ نمبر 540 بھی درمیان والے صفحے کے متوازی ہیں لیکن دور دور واقع ہیں۔ متوازی کائناتوں کو تصور میں لانے کے لیے یہ بہترین اینالوجی ہے۔ جو کائناتیں ہمارے بالکل ساتھ ساتھ واقع ہیں وہ بھلا کیسی ہونگی؟ وہ ایسی ہونگی،

فرض کریں آپ یہ مضمون پڑھتے وقت ابھی اِس ’’لفظ‘‘ پراپنی پلک جھپکتے ہیں۔ یہ ایک امکان ہوگا۔ اور آپ اس لفظ پر پلک نہیں جھپکتے، یہ دوسرا امکان ہوگا۔ لیکن یہ دونوں امکانات ایسی متوازی کائناتوں کے ہونے کا ثبوت ہیں جو اُس کتاب کے درمیانی صفحات کے ساتھ والے صفحات جیسی ہیں۔ لیکن اگر آپ اِس وقت یہ مضمون نہیں پڑھ رہے بلکہ موت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلا رہے ہیں تو یہ ایک ایسی متوازی کائنات کا ثبوت ہوگا جو کتاب کے درمیان صفحہ سے دور دراز واقع صفحات کی مثال جیسی ہیں۔ اس سے بھی دور دراز متوازی کائناتیں واقع ہیں۔ ایسی کائناتیں بھی وجود رکھتی ہیں جن میں ہم وجود نہیں رکھتے۔

سو متوازی کائناتوں کی تھیوری ہیوایورٹ کی تھیوری ہے اور اِسی پر سب سے زیادہ فلمیں بنتی ہیں یا بنی ہیں۔ اس تھیوری کے مطابق ڈبل سلٹ ایکسپیری منٹ کے دوران دراصل عقبی ڈیٹیکٹر کے ہرطولِ موج پر پارٹیکل اُترا لیکن ہم چونکہ اپنے منطقی فہم کی وجہ سے فقط ایک ہی امکان کو دیکھ سکنے کے اہل ہیں اس لیے ہم نے تمام پارٹیکلز کی لینڈنگ نہ دیکھی، صرف ایک کی دیکھی۔ جس سے ہمیں لگا کہ ہم نے فی الاصل ویو فنکشن کو کولیپس کردیا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ ہم بطور شاہد ویوفنکشن پر اپنے اثرانداز ہوجانے کی خوش فہمی کا شکار ہوگئے ورنہ تو پارٹیکل نے عقبی ڈیٹیکٹر پر بننے والے ’’ویو پیٹرن‘‘ کے ہرنشیب اور ہرفراز پربرابر لینڈ کیا تھا۔ بالفاظ دیگر ریبِٹ ہول کے خرگوش نے فی الاصل ہرراستے سے سفر کیا تھا کیونکہ وہ ایک خرگوش تھا ہی نہیں وہ تو امکانات تھے۔ دوسرے سوراخ سے خرگوش نکلا تو ہم نے اس کی حقیقت کو کولیپس نہیں کیا بلکہ ہمارا منطقی فہم اِس اہل ہی نہیں تھا کہ وہ تمام امکانات کو ایک ساتھ دیکھ پاتا۔ ہم تمام امکانات کو ایک ساتھ دیکھ ہی نہیں پاتے۔ ہمیں متوازی اور لامتناہی سلسلۂ امکانات میں سے فقط ایک ہی نظر آتاہے اور فقط ایک ہی نظر آسکتاہے۔

جبکہ کوپن ہیگن انٹرپریٹیشن میں کہا گیا تھا کہ یہ شاہد ہے جو ویوفنکشن کو کولیپس کردیتاہے اور بہت سی حقیقتوں کے امکان میں سے ایک حقیقت مشہود کرنے کا باعث بنتاہے۔ نیلز بوھر اور آئن سٹائن کے درمیان آئن سٹائن کی موت تک یہ مناظرہ جاری رہا کہ شاہد یا ناظر کی فزکس میں کیا حیثیت ہے؟ آئن سٹائن یہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھا کہ شاہد کائنات میں تبدیلی لانے کا باعث بن سکتاہے، فقط مشاہدہ کی وجہ سے۔ ایک موقع پر آئن سٹائن نے کہا تھا،

’’تو کیا ایک چوہا بھی جب کائنات کو دیکھتاہے تو وہ اس کو تبدیل کردیتاہے؟‘‘

اس کے جواب میں فزکس کے لوگ کہتے تھے، چوہا تو درکنار، ایک تتلی جب اپنا پَر پھڑپھڑاتی ہے توبھی کائنات کی حقیقت تبدیل ہوجاتی ہے۔ اسی کو تو بٹرفلائی ایفکٹ کہتے ہیں۔ اسی بٹرفلائی ایفکٹ پر بھی ہالی وُوڈ نے کئی فلمیں دی ہیں۔

ذاتی طورپر میری تشفی ہیوایورٹ کی تشریح سے ہوتی ہے۔ کسی وقت میں اس تشریح اور ہمارے فیصلوں کے موضوع پر ایک مضمون لکھونگا جلد، لیکن سردست اس سلسلےمیں یہ کہنا چاہتاہوں کہ میری دانست میں ہم ٹائم ٹریول کے تجربے سے متعدد بار گزرتے ہیں لیکن ہمیں احساس اس لیے نہیں ہوتا کہ ہم اپنی قریب ترین کائناتوں میں پھسل جاتے ہیں۔ یا زیادہ مناسب لفظ استعمال کروں تو سلِپ ہوجاتے ہیں۔ بالکل ایسے جیسے کوئی چیز سلائیڈ ہوکر ایک میز کے نیچے سے دوسرے میز کے نیچے چلی جائے۔ ہم اپنے ہرامکان کے آس پاس موجود امکانات میں پھسلتے ہیں۔ اور جب کبھی ہم ایک مکمل کائنات سے دوسری مکمل کائنات میں سلپ ہوتے ہیں تو شاید کیفیت بڑے پیمان پر تبدیل ہوتی ہے، جس کا ہمیں احساس بھی ہوتاہے لیکن ہم اسے اپنی طبیعت کی خرابی پر محمول کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ فقط میرا اپنا قیافہ یا تفرد ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مائیگرین کے دوران انسان ٹائم ٹریول کے عمل سے گزرتاہے۔ امریکہ میں تو ایسی مخلوق وافر مقدار میں پائی جاتی ہے جو مائیگرین کو جسمانی بیماری نہیں سمجھتی۔ مائیگرین کی کئی قسموں میں مائیگرین ود اورا کو کئی فکشن لکھاری دوسری کائناتوں کی سیر کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔

اصل میرا مانناہے کہ ٹائم مشین کو مادی اجزأ سے بنالینا ممکن نہیں ہے۔ میرا یہ خیال ہے کہ جب کبھی بھی ٹائم مشین کا بنالیا جانا ممکن ہوا تو وہ یا تو ٹیلی پورٹیشن کا طریقہ ہوگا کہ کوانٹم انٹینگلمنٹ کو پوری طرح سمجھ کر استعمال میں لایا جاسکے گا اور ہم ایک جگہ سے ڈی میٹیریلائز ہوکر دوسری جگہ میٹیریلائز ہوجایا کرینگے۔ یا پھر ہم کائناتوں کے درمیان سلِپ ہوپائیں گے اور فقط کسی ایسی توانائی کے ذریعے جو الیکٹرومیگانیٹک ویوز سے کہیں زیادہ ہے اور شاید وہ گریوٹی ہی کی کوئی شکل ہے جسے ہم ابھی تک نہیں جانتے۔ گریوٹان کے بارے میں پہلے سے یہ رائے پائی جاتی ہے کہ وہ فی الاصل الیکٹرومیگانیٹک ویوز سے کمزور نہیں ہیں۔ وہ کمزور اِس لیے نظر آتے ہیں کہ وہ دیگر کائناتوں میں سلِپ ہوتے رہتے ہیں۔ برائن اِس کی مثال دیتے ہوئے بلیئرڈ کا ایک ٹیبل استعمال کرتاہے اور دِکھاتاہے کہ بلیئرڈ کی گیندیں جو کہ ٹُوڈائمینشنل حرکت کررہی ہیں جب آپس میں ٹکراتی ہیں تو ان کا مومینٹم ایک دوسرے میں منتقل ہونے کے باوجود توانائی کی کچھ مقدار آواز کی موج کی صورت تیسری ڈائمیشن میں پرواز کرجاتی ہے۔ یہ بہت ہی اچھی مثال ہے۔ چنانچہ اسی مثال پر ہی فزکس کے ماہرین کا مانناہے کہ گریوٹانز کی طاقت کم نہیں بلکہ بہت زیادہ ہے لیکن ہمیں کم اس لیے دکھائی دیتی ہے کہ وہ بھی ایسی ہی کسی ڈائمینشن میں سلپ ہوجاتے ہیں اور یہ ڈائمینشن ایک الگ کائنات ہے۔ جو ایک الگ ممبرین (جھلّی) پراپنا وجود رکھتی ہے۔ برائن ہی بتاتاہے کہ اگر دوسری کائناتوں کے ساتھ کبھی رابطہ ممکن ہوپایا تو وہ فقط گریوٹانز کی بدولت ہی ہوگا۔ وہ اُس پہلے ٹیلیفون کو ’’گریوٹی فون‘‘ کا نام دیتاہے جس کی مدد سے ہم ایک کائنات سے دوسری کائنات میں کال کرسکیں گے۔

زمین کتنی بڑی ہے؟ ایک چھوٹا مقناطیس کتنا چھوٹاہے؟ اگرزمین پر لوہے کا ایک کِیل پڑاہو تو زمین کی ساری گریوٹی ایک طرف اور اس چھوٹے سے مقناطیس کی میگانیٹک پاور ایک طرف، وہ مقناطیس کیل کو اُٹھالیتاہے۔ یہ ہے ثبوت کہ گریوٹی دیکھنے میں کمزور قوت ہے۔ لیکن یہ فی الاصل کمزور قوت نہیں ہے بلکہ بہت زیادہ طاقتور قوت ہے،یہ خیال سٹرنگ تھیوری، برین تھیوری اور ایم تھیوری کا خاص الخاص خیال ہے۔

سومیں یہ سمجھتاہوں کہ ہم گریوٹانز کے استعمال کے قابل ہوئے تو لوہے اور کانکریٹ سے بنائی گئی مشینری کے ذریعےنہ ہوپائیں گے۔ وہ ضرور کوئی ایسی توانائی ہوگی جو ہمارے اندر سے برآمد ہو۔ کیونکہ کائنات میں فی الحال تک، سب سے اکمل مشینری ہم ہی ہیں جومختلف توانائیوں کے استعمال کے پیچیدہ ترین نظام کی حامل ہستیاں ہیں۔ ہمارے اندر تھوڑی سی غذا جاتی ہے لیکن اس کے آؤٹ پُٹ کے طورپر ہم بے پناہ بلکہ لامتناہی حدتک طاقتور توانائی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہمارے خیالات جو نیورانز سے چلتے ہیں، زمین کا جغرافیہ بدل دینے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے، چاند پر جھنڈا تک گاڑ سکتے ہیں۔ چنانچہ اگر کبھی ہم ایسے کسی ذریعے کی دریافت تک پہنچ گئے جو ہمارے وجود کے اندر سے ایک خاص توانائی کو ڈولپ کرلینے کا ذریعہ ہو تو چنداں مشکل نہیں کہ ہم بھی صاحب ِ لولاک بن جائیں۔ ویسے بھی اقبال نے کہا تھا، مؤمن نہیں جو صاحب ِ لولاک نہیں ہے۔

ہمیں صرف تیری تلاش تھی سفر آسماں کا شروع کیا

ابھی سنگِ میل تھا ساتواں تری جستجو سے نکل گئے

ادریس آزاد