سیدھی لائن کا وجود ممکن نہیں، جیوڈیسِک کی تفہیم(طلبہ کے لیے)

ہمارے وائٹ بورڈز پر بنائی گئی جیومیٹری کا کائنات کی حقیقی جیومیٹری کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ یہ ریشنل سرگرمی کا نتیجہ اورفقط خیالی جیومیٹری ہے جبکہ حقیقی جیومیٹری امپریکل سرگرمی کا نتیجہ بایں ہمہ  ہماری اپنی دنیا کی جیومیٹری ہے۔بیسویں صدی کا آغاز  انسانی تاریخ ِ علم کا سب سے بڑا موڑہے۔صرف فزکس ہی نہیں بدلی، سب کچھ بدل گیا۔ ریاضی بدل گئی، جیومیٹری بدل گئی، کیمسٹری بدل گئی، مادے کی تعریف بدلی، کششِ ثقل یعنی گریوٹی کی تعریف بدلی، حرکت، سکون، مومینٹم، ڈائمینشنز، ماس، ولاسٹی، توانائی، سب کچھ ہی یکسربدل ہی نہ گیا بلکہ بالکل اُلٹ ہوگیا۔یوکلیڈین جیومیٹری جو ’’چیونٹی جیسے سوچ کے مالک انسانوں‘‘ کی دریافت تھی، خیالی اور احمقانہ سمجھی جانے لگی اور اس کی جگہ مِنکوسکی اور آئن سٹائن کی نئی جیومیٹری نے لے لی۔ یہ جملہ کہ، ’’فُلاں چیز دس ہزار کلوگرام کمیّت یعنی ماس کی حامل ہے‘‘ اپنی استخراجی حیثیت کھو بیٹھا کیونکہ اس کا انحصار بھی ناظر پر آگیا۔ ایک ناظر کے لیے وہ دس ہزار کلوگرام ہے تو دوسرے کے لیے پانچ ہزار اور تیسرے کے لیے زیروکلوگرام۔فوٹان میں ماس نہیں ہوتا لیکن فوٹان میں ولاسٹی ہونے کی وجہ سے ایک میتھیٹکل ماس نکالا جاتاہے اور اس کو  فوٹان کی ولاسٹی کے ساتھ یوں ضرب تقسیم کیاجاتاہے کہ فوٹان بھی مومینٹم کا مالک بن جاتاہے اور ایسا مالک کہ  دھوپ زمین پر پڑے تو زمین کا وزن بڑھ جاتاہے ۔ ہرروشن صبح بڑے شہروں کا وزن کئی کلوگرام بڑھ جاتاہے۔

گریوٹی یوں نہیں کہ زمین چیزوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے بلکہ گریوٹی یہ ہے کہ چیزیں اپنی جگہ پر ہی رہتی ہیں زمین چیزوں کی طرف لپک کر اُوپر کو اُٹھتی ہے اور ان کے ساتھ آلگتی ہے۔ بالکل ویسے جیسےآپ ہوا میں معلق ہوں اور ایک لفٹ نیچے سے اوپرآکر آپ کو اپنے اُوپر سوار کرالے۔ایک سگا بیٹا عمر میں اپنے باپ سے بڑا ہوسکتاہے۔دو جڑواں بہنوں میں ایک اسّی سال کی تو دوسری پچیس سال کی ہوسکتی ہے۔حرکت دھوکاہے لیکن سب کچھ حرکت ہی ہے۔ ہرحرکت کرتاہوا آبجیکٹ اپنے سے کم حرکت کرتے ہوئے آبجیکٹس کے مقابلے میں زیادہ جی رہا ہے گویا سچی مُچی ’’حرکت میں برکت ہے‘‘۔

یوکلیڈین جیومیٹری کے وقت ہم چیونٹیوں کی طرح سوچتے تھے۔ ہم احمق تھے۔ یوکلیڈین جیومیٹری غلط ہے او رکائنات کے کسی مظہر کو بیان نہیں کرسکتی۔ دنیا میں کسی سیدھی لائن کا وجود ممکن نہیں ہے۔ ہرلائن اصل میں ہلکی سی قوس ہوتی ہے۔ کائنات سیدھی نہیں ہے بڑی ٹیڑھی ہے، پوری کی پوری کائنات کُروی (Curved) ہے۔’’کُرہ ‘‘ اردو میں سفیئرکو کہتے ہیں۔ سفیئر کسی گیند جیسی شکل کی چیز کو کہتے ہیں۔ اردو میں کسے شئے کو کُروی کہا جائے تو اس سے مُراد ہوتی ہے کہ وہ شئے سفریکل (Spherical) ہے یعنی گیند کی شکل کی ہے۔ کوئی کرہ ٹوٹا ہوا بھی ہوسکتاہے۔مثلاً مٹی کا ایک بالکل گول برتن اگر ٹوٹ جائے تو اس کا ہرٹکڑا کروی کہلائے گا۔ایک باؤل  یا پیالہ آدھا کُرہ  (Hemisphere)ہوتاہے۔ ایک ٹُوٹے ہوئے باؤل کا ہرٹکڑا کُروی کہلائے گا کیونکہ وہ اندر کی طرف سے مقعر(Concave)اور باہر کی طرف سے محدّب (Convex) ہوگا۔ سیّارے اور سورج گول کُرے یعنی گیندوں جیسے ہیں۔ کائنات میں ہرمادہ آبجیکٹ بالآخر گول ہوجانے کی طرف مائل ہے کیونکہ سپیسٹائم خود کرویچر ہے۔

جیوڈیسک کی تفہیم

سیارے اور ستارے کُروی ہیں اور کہکشائیں سی ڈی پلیئر کی ڈِسکوں  اور کمپیوٹر کی سِیڈیوں جیسی ہیں لیکن بہت موٹی تہہ والی ڈسک ، اتنی موٹی کہ  فی الاصل  کہکشائیں بھی  کُروی ہیں۔ اور یہ سب جس سپیسٹائم میں موجود ہیں وہ سپیسٹائم خود بھی کُروی  (Curvature)ہے۔گریوٹی کشش کی قوت نہیں ہے، گریوٹی فقط ایک خاص قسم کی جیومیٹری کا نام ہے۔دراصل سپیس اور ٹائم کے دھاگے ہوتے ہیں۔ یہ دھاگے کسی کپڑے کی شکل میں بُنے ہوئے ہیں۔ یہ کپڑا بہت ہی بڑاہے۔ اس میں جگہ جگہ بڑے بڑے گڑھے ہیں، جنہیں گریوٹی ویل یا کشش ِ ثقل کے کنویں کہا جاتاہے۔ جن میں ہرگڑھے کے اندر ایک ایک کہکشاں گری ہوئی ہے۔  ایک کہکشاں سے دوسری کہکشاں تک ، درمیان  میں موجود سپیسٹائم کے اِس لچکدار کپڑے کا وہ حصہ جہاں کہکشائیں نہیں ہیں تیزی سے پھیل رہا یعنی سٹریچ (Stretch) ہورہاہے۔اس لحاظ سے گریوٹی، کشش کی بجائے دفع کی قوت بن کر ظاہر ہورہی ہے۔یعنی پَرے دھکیلنے کی قوت ہے۔

جیوڈیسک کی تفہیم

ہرکہکشاں اپنے آس پاس کی تمام کہکشاؤں کو پوری قوت سے پرے دھکیل رہی ہے  یعنی تمام کہکشائیں ایک دوسرے کو پرے دھکیل رہی ہیں۔فرض کریں کائنات میں ایک جگہ دس کہکشاؤں کا ایک جھرمٹ ہے اور ان میں سے ہرکہکشاں دوسری کو پرےدھکیل رہی ہے  تو لازمی طور پر کچھ کہکشائیں ایسی ہونگی جوبیچوں بیچ پھنسی کہکشاؤں کوچاروں طرف سے دبارہی ہونگی۔پوری کائنات میں تمام کہکشائیں اسی طرح ایک دوسرے کو دھکاماررہی ہیں۔اس دباؤ کو رِی پلسِو گریوٹی کہاجاتاہے جو کہکشاؤں کے اندر کشش کی قوت کی صورت ظاہر ہوتی ہے کیونکہ بیرونی سپیسٹائم میں اِنہیں چاروں طرف سے دھکا پڑرہاہے۔کائنات کے مرکز سے کوئی واقف نہیں۔ کائنات میں ہرنکتے کو فی الحال مرکز تسلیم کیا جاسکتاہے۔

کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے پرے دھکیلنے کے لیے توانائی کی ضرورت ہے۔اس عمل میں استعمال ہونے والی توانائی کا نام ہے ڈارک انرجی جو پوری کائنات کے مادے اور انرجی کا تہتر فیصدہے اور وہ ڈارک اس لیے کہلاتی ہے کہ ہم ابھی اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہیں ماسوائے اِس کے کہ کہکشاؤں کو جو قوت ایک دوسرے سے پرے دھکیل رہی ہے وہ ری پَلسِو (Repulsive) گریوٹی ہے ۔ اتنی زیادہ گریوٹی کائنات میں کہاں سے آئی ہے؟ یہ بھی ضرور بِگ بینگ کے وقت سے ہی آئی ہوگی لیکن اس سے زیادہ ہم اس کے بارے میں ایک تنکا بھی نہیں جانتے۔ڈارک انرجی پر میں پہلے ایک مضمون لکھ چکاہوں۔

گویا بیسویں صدی کاآغاز علمی دنیا کا وہ انقلابی عہد ہے جس کی مثال ارسطوسمیت تاریخ ِ انسانی میں ملنا ممکن نہیں ہے۔ سب کچھ بدل گیا۔ بڑی بڑی باتیں ہوہی رہی تھیں کہ چھوٹی چھوٹی باتیں بھی ہونے لگیں۔ کائنات او رکہکشاؤں کی باتیں کرنے والے ایٹم اور باریک ذرّات کی باتیں کرنے بیٹھے تو کوانٹم کی دنیا نے جنم لیا۔ ایک ایسی دنیا جس میں نیوٹن کا کوئی قانون پورا نہ اُترتاتھا۔ ایک ایسی دنیا جس میں نہ تو گریوٹی دکھائی دیتی تھی اور نہ ہی آئن سٹائن کا سپیس ٹائم فیبرک۔ فیبرک ایک ایسے کپڑے کو کہتے ہیں جو لازمی طورپر بُنا گیاہوا۔ ویلوِٹ یا ریکسین کو فیبرک نہیں کہا جاسکتا۔ آئن سٹائن  کی  سپیس فقط سپیس نہیں ہے وہ ’’سپیس ٹائم فیبرک ‘‘ ہے۔ ایک ایسا کپڑا جو بُنا ہوا ہے۔ اس کے دھاگوں میں ایک طرف کے دھاگے سپیس کے ہیں اور ان کے عمودی دوسری طرف کے دھاگے ٹائم کے ہیں۔ کسی بھی بُنے ہوئے کپڑے پرطاقتور عدسہ رکھاجائے تو ان کی بنائی اتنی بڑی بڑی دکھائی دیتی ہے کہ جیسے کسی بڑے سے گراف پیپر کی گرِڈ(Grid)۔

جیوڈیسک کی تفہیم

عدسہ اور زیادہ بڑاہو تو گرڈ اور بڑے گراف کی طرح دکھائی دیتی ہے۔

جیوڈیسک کی تفہیم

آئن سٹائن نے سپیس ٹائم کو آپس میں بُن دیا اور ایک فیبرک وجود میں آگئی جسے آج سپیس ٹائم فیبرک کے نا م سے پکار جاتاہے۔لیکن کوانٹم والے ’’باریک بینوں‘‘ نے اس گراف پیپر جیسی سپیسٹائم کو  ایٹم کی سپیس میں ڈھونڈنے کی کوششیں شروع کردیں۔ کیسی دیوانوں جیسی کوشش تھی؟ ہم جس کائنات میں رہتےہیں وہاں ہمیں اپنی گرِڈ  (Grid)تک نظر نہیں آئی، صرف ہم نے محسوس کی ہے او روہ بھی آئن سٹائن کے توجہ دلانے کے بعد۔ ایٹم کے اندر کا جہان، جو بہت ہی باریک جہان ہے، اُس کی گرِڈ ہمیں خاک دکھائی دیتی؟ لیکن کوانٹم کے دیوانے ریاضی دانوں نے اُس گرِڈ کے لیے مفروضے پیش  کرنے شروع کردیے اور ایک ایک ڈائمینشن نیچے اُترتے اُترتے بالآخر سٹرنگز کے خیال ِ  محال و فقید المثال تک جاپہنچے اور سپیس کی دس ڈائمینشنز تک نیچے اُترگئے۔یعنی گرِڈ کے ایک خانے کو بڑا کیا، پھر اُس خانے میں جو نئی گرِڈ دکھائی دی، اس کے ایک خانے کو بڑا کیا، پھر اس خانے میں جو نئی گرِڈ دکھائی دی اُس کے ایک خانے کو بڑا کیا، علیٰ ھٰذالقیاس۔

بیسویں صدی کے آغا زمیں کائنات سے متعلق تمام تر علمی دنیا کا سب کچھ بالکل اُلٹ پلٹ کردیاگیا۔جب سیدھی لائن کا وجود ممکن نہیں توتمام مثلثیں اور تمام مربعوں کا وجود کیسے ممکن ہے؟ ہماری ساری لائنیں، ساری مثلثیں، سارے مربعے اور سارے دائرے غلط ہیں۔ حقیقت کے برخلاف ہیں۔ خیالی دنیا کی چیزیں ہیں۔ فقط ریشنل (عقلی)سرگرمی کا نتیجہ ہیں نہ کہ عملی، حسی یا امپریکل سرگرمی کا۔حقیقت تو یہ ہے کہ،

کیا زمین گول  نہیں ہے؟ اگر زمین گول ہے تو کیا زمین کی بیرونی سطح پر کوئی  یوکلیڈین عنصر کی ڈرائنگ ممکن ہے؟ بالکل بھی ممکن نہیں ہے۔ مثلاً ہم ایک بہت بڑی مثلث زمین پر بنانا چاہتے ہیں۔ ایک کافی بڑی مثلث جو  فٹبال کے کئی میدانوں جتنی ہو، مثلاً جو لاہور سے اسلام آباد کے درمیان بنائی جائے تو کیا وہ ہموار زمین پر بنے گی؟ کیا ایسی مثلث کے تینوں زایوں کا مجموعہ ایک سو اسّی ہوگا؟ کسی کرُوی (Curved) چیز پر مثلث  کا بنایا جانا ممکن ہی کیونکر ہے؟ کوئی مربع، کوئی مستطیل بنانا ناممکن ہے۔ یہ سب چیزیں ہم اُس وقت بنایا کرتے تھے جب ہمارا فہم ِ منطقی ایک چیونٹی کی طرح کام کرتا تھا۔ جب ہم اپنے آس پاس کی سیدھی او رہموار زمین کو ہی اصل حقیقت سمجھتے تھے۔ ہم لکیریں لگاتے تھے اورانہیں سیدھا سمجھتے تھے۔ حالانکہ زمین کے کُروی(سفریکل) ہونے کی وجہ سے وہ  لکیریں کبھی بھی سیدھی نہ ہوتی تھیں۔ زمین کے بڑے گیند پر ہلکی سی قوس بنارہی ہوتی تھیں۔ہم نے متوازی لکیروں کی تعریف پڑھی  تھی، ’’دو پیرالل لائنیں، وہ لائنیں ہوتی ہیں جو کبھی آپس میں ایک دوسرے کو قطع نہیں کرسکتیں‘‘۔ اور ’’کبھی بھی‘‘ سے مراد ہوتی تھی، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے‘‘۔ لیکن اِسی زمین پر اب ہم آزماتے ہیں۔ ہم خط استوأ جیسی سیدھی لائن پر دو دوستوں کو ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر  کھڑا کرتے ہیں۔اور ان کو بالکل سیدھی لائینوں پر شمال کی طرف روانہ ہونے کے لیے کہتے ہیں۔ یوکلیڈین جیومیٹری کے رُو سے انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلتے چلے جانا چاہے اور ایک دوسرے سے کبھی نہ ملنا چاہیےلیکن وہ شمال کی طرف بڑھتے جاتے ہیں تو زمین کے کُروی ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے نزدیک ہوتے چلے جاتے ہیں اور بالآخر ایک دوسرے  سے مل جاتے ہیں۔کُروی جیومیٹری میں پیرالل لائنوں کا تصور بھی بدل گیا۔

سب کچھ بدل گیا۔ہرشئے کی تعریف نئے سرے سے کرنا پڑی۔ یکایک سائنس کو بڑے پیمانے پر نئے بیانیے کی ضرورت پیش آگئی۔مادے کی نئی تعریف کیا کی جائے؟ ماس کی نئی تعریف کس طرح مقرر ہو؟ فاصلے، زمان، مکان ، قوت، توانائی، ذرّات، سب کچھ کے لیے نئے الفاظ درکار تھے۔ نئی جیومیٹری کے لیے نئی نئی اصطلاحات کی شدید ضرورت تھی۔سیدھی لائن کی تعریف بدلی جائے تو کیا کہا جائے؟

جیوڈیسِک۔ سیدھی لائن کو جیوڈیسِک کہا جائے۔ جیوڈیسِک منکوسکی کے بنائے ہوئے ماڈل میں ایسی چھوٹی  سے چھوٹی لائن ہے جو کُروی خط پر دو قریبی نقاط کے درمیان کھینچی جاسکے۔ بھئی جب کوئی کرہ (سفیئر) بہت ہی زیادہ باریک ہوگا جیسا کہ مثلاً ایک ایٹم جتنا باریک تو اس پر جیوڈیسِک کو کیسے کھینچیں گے؟ دوقریبی نقاط بھی چُن لیں تب بھی لائن تھوڑی سی قوس میں گھوم جائے گی؟ سیدھی تو پھر بھی نہ ہوئی۔ آئن سٹائنِک فزکس کی طرف سے جواب آتاہے، جی ہاں ! سیدھی لائن ممکن نہیں ہے۔ جیوڈیسِک ایسی لائن ہے جس پر اگر ایک ویکٹر سفر کررہاہو تو وہ کوئی زاویہ نہیں بناتا۔وہ کروی لائن پر ٹینجنٹ ہوتاہے لیکن لیٹاہوا بھی اُسی  کُروی لائن پر ہوتاہے، نہ دائیں طرف کو زاویہ بناتاہے، نہ بائیں طرف کو۔ جیسے یوکلیڈین جیومیٹری میں کسی بھی قوس پر ایک ویکٹر زاویہ بناتاہے، گریٹ سرکل کی کروی لائن پر ویکٹر ایسے زاویے نہیں بناسکتا۔ نیچے دی گئی تصویر سے  یہ بات سمجھ آئے گی،

جیوڈیسک کی تفہیم

اس تصویر میں دیکھا جاسکتاہے کہ پرانی جیومیٹری جسے ہم بورڈ پر ’’ڈرا‘‘ کرتے تھے، اُس جیومیٹری میں ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی ویکٹر کسی قوس کے ساتھ کوئی زاویہ بنائے بغیر چل سکے جیسا کہ وہ کسی سیدھی لائن کے ساتھ چل سکتا تھا۔مثلاً نیچے دی گئی تصویر میں ویکٹر سیدھی لائن کے ساتھ کوئی زاویہ نہیں بنارہا لیکن اوپر والی تصویر میں قوس کے ساتھ جگہ جگہ زاویے بناتاہوا آگے بڑھ رہاہے۔

جیوڈیسک کی تفہیم

لیکن کائنات کی جیومیٹری حقیقت میں  یوکلیڈیَن نہیں ہے۔ کائنات کی جیومیٹری،  کائنات میں کسی مقام پر بھی ایسی نہیں ہے۔ کہیں بھی کائنات میں سیدھی لائن  کھینچنا ممکن نہیں ہے۔کائنات کُروی ہے۔ سیارے کروی ہیں، ستارے کروی ہیں۔ کہکشائیں  جودور سے کسی ڈِسک جیسی دکھائی دیتی ہیں حقیقت میں کُروی ہیں۔ سپیس بھی کرُوی ہے اور ہماری زمین بھی  کُرہ (سفیئر) ہے۔ چنانچہ ایک کُروی سطح پر سیدھی لائن کا کیا  مطلب ہوگا؟ ایک کروی سطح پر یا کسی کروی سطح سے نکالی گئی قوس کے ٹکڑے پر جب بھی کوئی ویکٹر رکھیں  اور وہ اس قوس پر کوئی زاویہ نہ بنائے تو ہم کہینگے کہ قوس کا وہ ٹکڑا جیوڈیسِک ہے یعنی سیدھی لائن ہے۔

جیوڈیسک کی تفہیم

اس تصویر میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ایک سفیئر پر کچھ ویکٹر تو بعض لائنوں کے ساتھ ٹینجنٹ ہوکر اُن کے ساتھ پیرالل ٹرانفارم ہورہے ہیں اور کچھ ویکٹرز اویے بنارہے ہیں۔ جو جو ویکٹر سیدھے جارہےہیں جیسے چیونٹی کسی باریک تار پر چلتی چلی جاتی ہے ، وہ ویکٹرز دراصل جیوڈیسِکس پر سفر کررہے ہیں۔جیوڈیسِک ہی کائنات میں سیدھی لائن کی تعریف پر پورا اترسکتاہے۔کیونکہ اگر ہم نے سیدھی لائن کے وجود سے مکمل انکار کردیا تو حرکت کے تمام قوانین غلط ہوجائینگے۔ جب اسراع یعنی ایکسلیریشن کی تعریف ہی یہ ہے  کہ رفتار بدل رہی ہو یا سمت بدل رہی ہو تو چیزوں میں اسراع پیدا ہوجاتاہے۔ اگر ہم کسی لائن کو سیدھا تسلیم ہی نہ کریں تو ہمیں ماننا پڑیگا کہ حرکت کرتے ہوئے جسم کی سمت ہر ہر نکتے پر بدل رہی ہے کیونکہ ہر لائن کُروی ہے۔یعنی اگر سیدھی لائن کا وجود ممکن نہیں تو انرشیل فریم کا وجود بھی ممکن نہ رہیگا۔ بس ہمیشہ ایکسلریشن ہی ایکسلریشن رہیگا۔

ہم ایک چیونٹی کو کسی کُروی سطح پر سفر کرتاہوں تصور میں لائیں تو یہ نکتہ مزید آسان ہوجاتاہے۔

جیوڈیسک کی تفہیم

اگر ہم اس چیونٹی کے دماغ میں داخل ہوکر دیکھنے کے اہل ہوتے تو ہمیں یہی محسوس ہوتاکہ ہم ہموار سطح پر چل رہے ہیں۔ چیونٹی خود کو ایک سیدھی لائن پر چلتا ہوا ہی محسوس کرتی ہے وہ  کسی سفیئر پر چلتے ہوئے بھی اپنے آپ کو سفیئر پر چلتاہوا محسوس نہیں کرسکتی۔

جیوڈیسک کی تفہیم

چنانچہ ایک مکمل دائرہ جو دراصل کسی سفیئر کے ڈایا میٹر جتنے ڈایامیٹر(قطر) کا دائرہ ہے، ایک مکمل جیوڈیسِک ہے۔ ایسے کسی دائرے کا ٹکڑا  یعنی قوس بھی جیوڈیسِک ہے۔ یہ ٹکڑا چھوٹے سے چھوٹا ہوکر بھی جیوڈیسِک ہے۔ اور بڑے سے بڑا ہوکر بھی ،لیکن  یاد رہے جیوڈیسک فقط اس دائرے  کا ٹکڑا  یاقوس ہےجو کسی سفیئر کا مکمل دائرہ یعنی ’’گریٹ سرکل کہلاتاہے‘‘۔

اس بات کو سمجھنے کے لیے گریٹ سرکل اور عام سرکل کا فرق جاننا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے پاس ایک کِینو ہے۔ ہم اُسے چھیلتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے اندر موجود قاشیں عمودی ہیں یعنی اُوپر والے پول سے نیچے والے پول(قطب) تک آرہی ہیں۔ کِینو(مالٹے) کی قاشیں اُفقی یعنی ہاریزینٹل نہیں ہوتیں۔ ایسی ہی تصویر ذہن میں رکھتے ہوئے ایک گلوب، کُرہ یا سفیئر سوچیں۔ ایسی سفیئر ہماری زمین بھی ہے۔ کیونکہ ہماری زمین کے بھی دو پول ہیں۔ ایک قطب شمالی اور دوسرا قطب جنوبی۔ چنانچہ وہ لائنیں جو قطب شمالی سے نکل کر قطب جنوبی کی طرف جارہی ہیں وہ عمودی لائنیں ہیں اور حقیقت میں وہ مکمل دائرے ہیں۔ لیکن ہماری زمین پر افقی لائنوں میں مکمل دائرہ فقط ایک ہی ہے جسے ہم خطِ استوأ یا اِکویٹر کے طور پر جانتے ہیں۔

جیو ڈیکس

ہماری زمین پر اُفقی (ہاریزنٹل) لائنیں تو  اور بھی ہیں لیکن وہ مکمل دائرے یا گریٹ سرکلز نہیں ہیں اور جیوڈیسک فقط گریٹ سرکل یا اس کی ایک قوس کو کہا جاسکتاہے۔ اُوپر والی تصویر کو غور سے دیکھیں تو عمودی لائنیں تمام کی تمام گریٹ سرکلز ہیں اور اُفقی لائن صرف ایک گریٹ سرکل ہے۔ جس سے ظاہر ہورہاہے کہ گریٹ سرکل صرف اسی دائرے کو کہا جارہے جو پوری سفیئر کے ڈایا میٹر جتنے ڈایا میٹر کا حامل ہے۔ خط استوأ سے قدرے اوپر والی یا قدرے نیچے والی اُفقی لائن کو دیکھیں تو وہ سفیئر کے ڈایا میٹر سے چھوٹے ڈایا میٹر کی لائنیں ہیں۔ایسی تمام لائنیں جیوڈیسِک نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے ٹکڑے جیوڈیسک ہیں۔چنانچہ سیدھی لائن کی پرانی تعریف اب ختم ہوگئی ہے۔ وہ تعریف یہ تھی، ’’دونقاط کے درمیان مختصر ترین فاصلہ سیدھی لائن کہلاتاہے‘‘۔ اب یہ تعریف بدل گئی ہے۔ اب نئی تعریف ہے کہ ایک جیوڈیسِک سیدھی لائن کہلاتاہے اور جیوڈیسک کسی بھی گریٹ سرکل کا کا کوئی ٹکڑا  یعنی قوس یا خود گریٹ سرکل ہوسکتاہے۔ ضروری نہیں کہ ہم تصور میں چھوٹے چھوٹے گریٹ سرکلز ہی لائیں۔ سپیسٹائم میں تو لاکھوں نوری سال کے فاصلوں پر محیط جیوڈیسکس دستیاب ہوسکتے ہیں۔

جب سپیسٹائم یعنی خلا کے کُروی ہونے کی بات آتی ہے تو تھوڑا سا کفیوژن اُس وقت بھی پیدا ہوتاہے۔اس سقم کو دور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم دو پیرالل جیوڈیسِک لیں اور انہیں  دُور تک دیکھیں، اگر وہ خلا میں متوازی ہی چلتے چلے جائیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ سپیس کروی نہیں ہے بلکہ ہموار ہے لیکن چونکہ وہ  دُور تک متوازی ہوکر نہیں جاتے بلکہ آگے جاکر مڑجاتے ہیں اور بالکل ویسے جیسے زمین پر متوازی چلتے ہوئے دو راستے شمال کی طرف بڑھنے پر ایک دوسرے کے قریب آنے لگتے ہیں دو جیوڈیسکس بھی ایک دوسرے کے قریب آنے لگتے ہیں یا دُور ہونے لگتے ہیں تو ثابت ہوجاتاہے کہ سپیس بھی کروی ہے ۔ روشنی کی شعاع کو سپیس میں سفر کرتاہوا دیکھا جاسکتاہے۔ یہ کام سائنسدان  1919  سےکرتے آرہے ہیں۔ اور روشنی کی شعاع کے ایسے ہی کروی اور قوس بناتے راستوں کو دیکھ کر ہی ڈارک میٹر  کا تصور متعارف ہوا تھا۔ جس پر میں پہلے ایک مضمون لکھ چکاہوں۔

چنانچہ آئن سٹائن کا یہ ماننا کہ گریوٹی کوئی فورس نہیں ہے بلکہ یہ سپیسٹائم کا کرویچر ہے ، درست ہے۔ یا  ایک طرح سے یوں کہا جائے گا کہ ’’گریوٹی فورس نہیں ہے بلکہ یہ جیومیٹری ہے‘‘۔ یہ فقط ایک جیومیٹری ہے جس کی وجہ سے ہمیں ساری گریوٹی کا احساس  ہوتاہے۔

کائنات اور جدید فلکیات کو سمجھنے کے شائقین کے لیے کم ازکم اب اِس نئی جیومیٹری کامطالعہ تو لازم ہوچکاہے وگرنہ کوئی صورت نہیں کہ وہ زمان و مکاں کے تعلق اور کائنات یا مادے اور انرجی کے تصورات کو سمجھ سکیں۔ البتہ وہ لوگ جو کوانٹم سطح پر سپیسٹائم فیبرک کو تلاش کررہے ہیں اُن کے تصورات آئن سٹائن کے تصورات سے بھی یکسرمختلف ہیں۔ ہم جس دنیا میں رہتے ہیں یہ سپیسٹائم  فیبرک سے بنی ہے  اور سپیس ٹائم بالکل کسی بُنے ہوئے کپڑے جیسی لیکن لچکدار چیز ہے۔کوانٹم سطح پریہ کپڑا اور بھی باریک بُنا گیاہے۔ اتنا باریک کہ ٹائم اورگریوٹی کے آئن سٹائنِک تصورات وہاں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ایٹم کے گرد الیکٹران کسی گریوٹی کے کُنویں میں نہیں گرتے نہ ہی پروٹانوں کو آپس میں جوڑ کر رکھنے والی قوت کا نام گریوٹی ہے۔ تو پھر ایٹم میں گریوٹی کہاں پائی جاتی ہے؟ سپیسٹائم میں گرِڈ (Grid) درگرِڈ نیچے اُترتے چلے جانے کے بعد ہمیں سپیس کی دسویں ڈائمینشن میں ایک خاص قسم کے نہایت باریک ریشے ملنے کی توقع ہے جنہیں سٹرنگز کہتےہیں۔ ان سٹرنگز میں ایک سٹرنگ کو گریوٹانز کہتے ہیں۔ کیا پتہ  گریوٹی یا سپیسٹائم کا دھاگہ جس کپاس سے بنتاہے یہ اس کپاس کے باریک باریک ریشے ہوں۔ کون جانے!

جب تک گریوٹانز دریافت نہیں ہوجاتے، ہم نہیں جانتے کہ ایٹم میں گریوٹی کیسے کام کرتی ہے۔ لیکن اگر دریافت ہوجاتے ہیں تو کمال ہوجائے گا کیونکہ اس کے بعد کم ازکم ہماری کائنات کا کوئی راز راز نہ رہیگا اور مزید رازوں سے کھیلنے کے لیے ہمیں مزید کائناتوں کی ضرورت ہوگی۔

خیر! تو اب ہم آتے ہیں سب سے اہم اور دلچسپ سوال کی طرف۔  آئن سٹائن نےجب جنرل تھیوری پیش کردی اورارتھر ایڈنگٹن نے تھیوری ثابت بھی کردی تو آئن سٹائن کے اِکولینس پرنسپل پر ایک بڑا اعتراض  سامنے آیا۔ اعتراض دیکھنے سے پہلے ہمیں اِکولینس پرنسپل دیکھ لینا چاہیے۔اِکولینس پرنسپل یہ تھا کہ ’’ گریوٹیشنل فریم‘‘ اور ایکسلیریٹ ہوتی ہوئی سپیش شپ کافریم ایک جیسے ہیں اور ان دونوں فریمز میں فرق کرنا ممکن نہیں۔

جیوڈیسک کی تفہیم

آئن سٹائن کی جنرل تھیوری کے بعد پہلی بارانسانوں کو معلوم پڑا تھا کہ روشنی بھی زمین پر گرتی ہے، بالکل ویسے جیسے ہرچیز گرتی ہے۔اور اس لیے آئن سٹائن کے سپیش شپ والے فریم پر بھی روشنی کے گرنے کا عمل ویسے ہی پیش آئے گا جیسے زمین پر آتاہے۔جیسا کہ تصویر میں نظر آرہاہے، روشنی بھی ایکسیلیریٹڈ فریم میں مُڑرہی ہے۔غرض اِکولینس پرنسپل یہ تھا کہ گریوٹی کوئی کشش نہیں ہے یہ   فقط دھوکا ہے ۔ حتیٰ کہ جب ہم کار کے بریکس زور سے لگاتے ہیں اور خود آگے کی طرف گرتے ہیں تو اس وقت بھی ہمیں آگے کی طرف پھینکنے والی قوت  گریوٹی ہوتی ہےحالانکہ دھکا پیچھے سے لگا۔یعنی جب بھی انرشیل فریم میں بھونچال آتاہے تو فریم کے اندر آزادانہ حرکت کرتی ہوئی چیزیں  حرکت کی مخالف سمت میں گرتی ہیں۔ یہ عمل کائنات میں جہاں کہیں بھی پیش آئے گا گریوٹی ہی کہلائے گا ۔ کیونکہ گریوٹی کوئی قوت نہیں بلکہ ایکسیلیریٹڈ فریمز میں موجود آزاد اجزأ کی  وہ حرکت ہے جو انہیں حرکت کی مخالف سمت دھکیلتی ہیں۔ایسی حرکت چونکہ دور خلاؤں میں موجود سپیش شپ میں فقط ایکسیلریشن کی وجہ سے بھی پیدا ہوسکتی ہے اس لیے گریوٹی ہو یا ایکسیلیریشن دونوں اصل میں ایک ہی چیز ہیں۔ اور یوں آئن سٹائن کا جنرل تھیوری کا اکولینس پرنسپل متعارف ہوا۔ اس پرنسپل پر بڑا اعتراض یہ کیا جاسکتاتھا کہ دونوں فریمز ایک جیسے کیسے ہوسکتے ہیں؟ کیونکہ اگر کسی  ایکسیلیریٹڈ سپیش شپ میں دو سیب نیچے کی طرف پھینکے جائینگے تو وہ ایک دوسرے کے متوازی نیچے آئینگے۔ لیکن جب  وہی ددو سیب زمین پر پھینکے جائینگے تو وہ ایک دوسرے کے متوازی ہوکر زمین پر نہیں آئینگے۔ہرگرتی ہوئی شئے زمین کے مرکزِ ثقل کی طرف گِرتی ہے۔ چنانچہ دو متوازی سیب ایک دوسرے کی جانب بہت تھوڑا سا بڑھتے ہوئے محسوس ہونگے۔

جیوڈیسک کی تفہیم

یہ وہ اعتراض تھا جو بظاہر درست تھا اور جس کی رُو سے آئن سٹائن کا اِکولینس پرنسپل غلط ثابت ہورہاتھا۔ زمین کی طرف گرتی ہوئی چیزیں تھوڑی ہی سی ہی سہی لیکن ایک دوسرے کی طرف بڑھتی ہیں لیکن سپیش شپ میں گرائے گئے دو سیب مرکز ثقل نہ ہونے کی وجہ سے متوازی راستوں پر سفر کرینگے۔

لیکن اس اعتراض کی بنیادی وجہ وہی تھی یعنی یوکلیڈین جیومیٹری میں قید رہنا اور کائنات کی بالکل نئی جیومیٹری کے تصورسے ناواقف ہونا۔ زمین کے ارد گرد سپیسٹائم فیبرک جس طرح سے فولڈ ہورہی ہے اس کی شکل یہ ہے کہ سپیسٹائم کے دھاگوں میں اُسی کِینو(مالٹے) کی قاشوں کی مثال پر جیوڈیسکس ہیں جو چاروں طرف سے زمین کواپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔ ہرپارٹیکل ہمیشہ جیوڈیسک پر سفر کرتاہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پارٹیکل رُکا رہتاہے اور اس کے نیچے سے جیوڈیسک یعنی سپیسٹائم فیبرک خود تیزی کے ساتھ سرکتی رہتی ہے۔مشہورجملہ ہے کہ،’’سپیس ٹائم فیبرک مادے کو بتاتی ہے کہ کس طرح حرکت کرنی ہے اور مادہ سپیسٹائم کو بتاتاہے کہ کیسی شکل اختیار کرنی ہے‘‘ چونکہ دو جیوڈیسکس مُڑجانے کے باوجود بھی ایک دوسرے کو کبھی قطع نہیں کرتے اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان پر گرتے ہوئے دو سیب ایک دوسرے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ سیب زمین کی طرف جیوڈیسکس پر سفر کرتے ہوئے گررہے ہیں۔جیسے کسی عورت کی دوچوڑیاں ایک دوسرے میں اس طرح پھنسا دی جائیں کہ ایک چوڑی شرقاً غرباً ہو تو دوسری شمالاً جنوباً۔ یعنی دونوں ایک دوسرے کے عمود میں واقع ہوں۔ اب ان دوچوڑیوں پر اگر دو چیونٹیاں چل رہی ہوں تو وہ چیونٹیاں اس لیے کبھی ایک دوسرے کو قطع نہیں کرسکتیں کیونکہ وہ دو الگ الگ  جیوڈیسکس یا گریٹ سرکلز پر چل رہی ہیں۔ کُروی جیومیٹری میں متوازی کا تصور یوکلیڈین جیومیٹری کے تقریباً الٹ ہے۔

چنانچہ دونوں سیب اپنے اپنے جیوڈیسک پر سیدھے ہی نیچے آرہے ہیں۔ بلکہ سیب اپنی جگہ پر کھڑے ہیں اور فریم خود ان کی طرف اُوپر کو اُٹھ رہاہے۔سیبوں کافریم انرشیل ہے اور زمین کا فریم ایکسیلیریٹڈ چنانچہ اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ ایک دوسرے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

آئن سٹائن کی جنرل تھیوری کا سب سے مشکل حصہ یہی ہے۔ہم اگر غور کریں تو ہم کسی بھی ہموار سطح کو کسی بھی کروی سطح پر ٹھیک سے نہیں رکھ سکتے۔

چنانچہ جب بھی ہم دو متوازی لائینوں کو کسی کروی سطح پر کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ  متوازی نہیں رہتیں بلکہ یا تو اندر کی طرف مڑجاتی ہیں یا باہر کی طرف۔جیسے ربڑ کی ایک شِیٹ ہو اور اس پر گراف بنا ہوا ہو اور ہم اسے ایک گیند پر چپکانے کی کوشش کریں تو لچکدار ہونے کی وجہ سے اس کا گراف کہیں کہیں سے پھیل جائیگا اور کہیں کہیں سے سُکڑ جائیگا، تب جاکر ہم اسے گیند پر چپکا سکیں گے۔اسی بنا پر کہا جاتاہے کہ کُروی جیومیٹری میں متوازی کا تصور مختلف ہے۔ زمین کے چہار اطراف موجود سپیسٹائم بھی ایسا ہی لچکدار ہے۔وہ جتنا بھی ہموار ہوکر زمین کو اپنی گرفت میں لینا چاہے اس کی لائینیں پھیل جاتی ہیں یا سکڑ جاتی ہیں کیونکہ وہ ایک لچکدار فیبریک ہےاور یہ امکان باقی نہیں رہتا کہ زمین کی طرف گرنے والے دو آبجیکٹس ، زمین کے مرکزِ ثقل کی وجہ سےآپس میں ایک دوسرے کی طرف تھوڑا تھوڑا نزدیک ہورہے ہیں۔

غرض یہ تھا جیوڈیسک یا نئے دور کی نئی جیومیٹری میں سیدھی لائن کا تعارف۔میری کوشش ہوگی  کہ جنرل تھیوری پر ایک تفصیلی مضمون الگ سے لکھ سکوں۔ شکریہ

 

ادریس آزاد

مذکورہ بالا مضموں مدیر: قاسم یادؔ نے شائع کیا۔

قاسم یاد گزشتہ بیس سال سے ادریس آزاد کے ساتھ مختلف علمی ادبی سرگرمیوں میں یوں موجود رہے ہیں جیسے درخت کےساتھ مالی۔انہوں نے ادریس آزاد کے قلم کی سیاہی کو کبھی خشک نہیں ہونے دیا۔ وہ خود ایک نہایت باذوق انسان ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے ویب ڈویلپر ہیں۔ ادریس آزاد کے بقول اُن کی تمام کُتب کی اوّلین کتابت قاسم یاد نے کی ہے ۔ یعنی ادریس آزاد نے اپنی کُتب خود نہیں لکھیں بلکہ اِملا کروائی ہیں۔ اصل نام قاسم شہزاد۔ قلمی نام قاسم یاد۔ قاسم یاد اب نہیں لکھتے، لیکن کبھی لکھا کرتے تھے۔ استفسار پر فرماتے ہیں، ’’میرے ابھی پڑھنے کے دن ہیں لکھنے کے نہیں‘‘۔ تحریر: محمد ریاض امین