کچھ اور نہایت غیر سائنسی باتیں

میرا ذاتی خیال ہے کہ،

ہرانسان کے بچپن میں ایک مخصوص سال ایسا آتاہے جس کے بعد سے وہ سوچنے لگتاہے کہ، ’’میں ایک خواب دیکھ رہاہوں اور کسی بھی وقت میری آنکھ کھل جائے گی تو میں واپس وہیں سے جاگ جاؤنگا، جہاں سویا تھا‘‘۔ وہ کئی سال تک ایسا سوچتا رہتاہے۔ پھر ایک مخصوص مدت کے بعد وہ ایسا سوچنا ترک کردیتاہے اور یہ سمجھنے لگتاہے کہ نہیں، وہ خواب نہیں دیکھ رہا بلکہ یہی حقیقت ہے اور اب سب کچھ بدل چکاہے۔

اگر میرا یہ ذاتی خیال درست ہے تو پھر ایک بات کی سمجھ آتی ہے کہ اُس بچے نے جس سال سے یہ سوچنا شروع کیا کہ وہ ایک خواب دیکھ رہاہے اُس سے پہلے والے عرصہ کو وہ حقیقی سمجھتا ہے، کیونکہ ظاہر ہے بعد والے کو ہی وہ ایک خواب کہہ رہاہے۔

پھر میرا یہ ذاتی خیال ہے کہ،
ایسا واقعہ زندگی میں دوتین بار پیش آسکتاہے۔ ممکن ہے کسی حادثے کے اثرات ہوں، نفسیاتی نوعیت کے۔ بہرحال دوبارہ بھی ایسا ہوسکتاہے کہ وہ پچھلے گزرے ہوئے وقت کے مقابلے میں یہ سوچنے لگ جائے کہ اب وہ ایک خواب دیکھ رہا ہے اور کسی وقت اس کی آنکھ کھل جائیگی۔

اس میں کیا شک ہے کہ ایسی نفسیاتی کیفیات فرد سے فرد تک مختلف ہوسکتی ہیں۔ لیکن مجھے خیال آتاہے کہ یہ وہ مقامات ہیں جب ہم شاید کسی قسم کے بٹرفلائی ایفکٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جب ہم ایک ٹائم لائن سے نکل کر کسی دوسری ٹائم لائن میں داخل ہوجاتے ہیں یا جب ہم اپنا جہان بدل دیتے ہیں، اپنی کائنات بدل دیتے ہیں۔

اسی طرح دے جاوُو کے بارے میں، میں نے اتنا زیادہ مشاہدہ کیا ہے کہ دے جاوُو بچوں کو زیادہ ہوتاہے اور بڑوں کو کم۔ یہ بات مجھے بہت حیران کرتی ہے۔ سائنس کو دیکھا جائے تو دے جاوُو بڑوں کو زیادہ ہونا چاہیے تھا۔ لیکن بچے ہمہ وقت دے جاوُو کا شکار ہوتے ہیں اور انہیں لمبے لمبے دے جاوُو ہوتے ہیں جب اُنہیں ایسا لگنے لگتا ہے کہ ’’یہ سب تو پہلے دیکھاہوا ہے، یہاں میں پہلے بھی آیا تھا۔ ایسے ہی سب لوگ بیٹھے تھے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

سو، دے جاوُو جیسے مظاہر جن کے بارے میں سائنس خاموش ہے اور ایسی دیگر بہت سی غیر سائنسی باتیں جیسا کہ میں نے اوپر اپنے یا ایک دودوستوں کی کیفیات سے نتائج اخذ کرکے لکھاہےبیک جنبشِ قلم رد نہیں کیے جاسکتے۔ بے شک کوئی رائے بھی نہیں دی جاسکتی لیکن ان میں موجود پراسراریت سے یکسر انکار بھی نہیں کیا جاسکتا۔

ایسا معلوم ہوتاہے دنیا کے بارے میں جو کچھ ہم جانتے ہیں یہ صرف نامکمل نہیں بلکہ مِس لِیڈنگ ہے۔ سوچتاہوں علمیات میں کانٹ کے بعد کانٹ جتنی طاقت والا کوئی شخص کیوں نہیں پیدا ہوسکا؟ اگر علمیات میں بھی کوئی ’’جدید علمیات‘‘ پیدا کرلی جائے تو اب یقیناً ایسے بہت سے سوالوں کے جوابات مل جائینگے۔

 

مذکورہ بالا مضموں مدیر: قاسم یادؔ نے شائع کیا۔

قاسم یاد گزشتہ بیس سال سے ادریس آزاد کے ساتھ مختلف علمی ادبی سرگرمیوں میں یوں موجود رہے ہیں جیسے درخت کےساتھ مالی۔انہوں نے ادریس آزاد کے قلم کی سیاہی کو کبھی خشک نہیں ہونے دیا۔ وہ خود ایک نہایت باذوق انسان ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے ویب ڈویلپر ہیں۔ ادریس آزاد کے بقول اُن کی تمام کُتب کی اوّلین کتابت قاسم یاد نے کی ہے ۔ یعنی ادریس آزاد نے اپنی کُتب خود نہیں لکھیں بلکہ اِملا کروائی ہیں۔ اصل نام قاسم شہزاد۔ قلمی نام قاسم یاد۔ قاسم یاد اب نہیں لکھتے، لیکن کبھی لکھا کرتے تھے۔ استفسار پر فرماتے ہیں، ’’میرے ابھی پڑھنے کے دن ہیں لکھنے کے نہیں‘‘۔ تحریر: محمد ریاض امین