کچھ لوگ جو جاتے ہیں پلٹتے ہی نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد

کچھ لوگ جو جاتے ہیں پلٹتے ہی نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد

18 اپریل 2020

کچھ لوگ جو جاتے ہیں پلٹتے ہی نہیں ہیں

اور اُن کے بِنا دن ہیں کہ کٹتے ہی نہیں ہیں

بکھرے ہی کچھ ایسے ہیں کہ کیا شعر کہوں میں؟

گیسو ترے لفظوں میں سمٹتے ہی نہیں ہیں

ماتھے پہ جو آئے ہیں یہ ہاتھوں سے ہٹا لوں

پَر، بال جو شیشے میں ہیں ہٹتے ہی نہیں ہیں

میں راستہ بھٹکوں تو چلے آتے ہیں جگنو

شاہیں ترے صحرا کے جھپٹتے ہی نہیں ہیں

چلتے ہیں ترے نقش ِ قدم پر بھی بصد شوق

ہم صرف تری رہ سے لپٹتے ہی نہیں ہیں

میں ہوں کہ ندامت سے مرا جاتا ہوں دِل میں

چُپ سادھ کے بیٹھے ہیں وہ پھٹتے ہی نہیں ہیں

دروازے کھلے ہیں جو وہ بجتے بھی بہت ہیں

وہ صرف مرے دل میں کھٹکتے ہی نہیں ہے

ادریس آزاد