تم مرے دِل سے دُھواں بن کے نکل کیوں نہیں گئے؟
تم مرے دِل سے دُھواں بن کے نکل کیوں نہیں گئے؟
اتنی جو آگ لگی تھی تمہیں جل کیوں نہیں گئے؟
میں تو پروردۂ اوقات تھا، رہنا تھا مجھے
آپ تو وقت تھے پھر آپ ہی ٹل کیوں نہیں گئے؟
آج بھی اُتنی ہی شدت سے تمہیں چاہتا ہوں
وہ جو سُورج کی طرح خواب تھے ڈھل کیوں نہیں گئے؟
آگِرے ہیں نا پھِسل کر وہ ہمارے دل میں؟
ہم نے بروقت بتایا تھا،سنبھل کیوں نہیں گئے؟
مجھ حدف پر تو چلے آتے ہیں بے ساختہ تیر
تم کہ تھے ساختہ پرداختہ چل کیوں نہیں گئے؟
لوٹ آیا تو وہ اِک بات بہت پوچھتا تھا
اس قدر وقت ملا، آپ بدل کیوں نہیں گئے؟
میں نے تو دِل سے مٹائے ہیں سبھی نقش و نگار
آئینے! تیرے، یہ پیشانی کے بل کیوں نہیں گئے؟