مقاصد حیات اور اقدار کا ارتقأ
عملی زندگی میں مقصد کی عدم موجودگی فرد کو کس قسم کے نفسیاتی تجربے سے دوچار کرسکتی ہے۔ اس کا احساس مجھے دو قسم کے مواقع پر ہوتارہا۔
نمبر۱۔ جب مقصد پورا ہوجائے اور کرنے کو کچھ نہ بچے۔
نمبر۲۔ جب کوئی عزم فسخ ہوجائے اور ایک عارضی کیفیتِ قنوطیت دِل کو گھیر لے۔
یہ ایک کرب ناک حالت ہے۔ بہت ہی کربناک۔ اگرکوئی ریسرچ کرے تو مجھے یقین ہے کہ نناوے فیصد خودکشی کے واقعات کے پیچھے یہی نفسیاتی کیفیت کارفرماہوتی ہے۔
اس معاملے کو ’’دلیل ِ غائی‘‘ سے ہٹ کر دیکھنا چاہیے۔ دلیل ِ غائی فلسفے کا سامان ہے۔ یہاں میرا موضوع صرف وہ ’’مقصد‘‘ ہے جو ہماری نفسیاتی زندگی سے جُڑا ہواہے۔ یعنی جسے فلمی زبان میں ’’جینے کا مقصد‘‘ کہتے ہیں۔ اور بھی آسان انداز میں بات کروں تو یہ جو ہم کہتے ہیں کہ ’’تم بڑے ہوکر کیا بنوگے؟‘‘ یہ ہم اپنے بچےکو جینے کے مقصد سے متعارف کروا رہے ہوتے ہیں۔ یا جب ہم کہتے ہیں کہ ’’میرا ٹارگٹ یہ ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔ بعینہ یہی عامیانہ مقصد مراد ہے۔
اب چونکہ ایسے مقاصد کی بھی اقسام ہوتی ہیں اس لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہم ارفع و ادنیٰ کہہ کر انہیں معاشرے کے لیے پسندیدہ یا ناپسندیدہ خود بناتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر تعلیم حاصل کرنا یا دوسروں تک پہنچانا ایک ارفع مقصد ہے اور باپ کے قتل کا بدلہ لینا ایک ادنیٰ مقصد ہے۔ دراصل انسان کے پاس ایک مشترکہ، اَن دیکھی، عالمگیر صلاحیت ہے کہ جو خیر کی خوگر ہے۔ مثال کے طور پر ایک زمانہ تھا جب انسان غلام بن کر منڈیوں میں بکا کرتے تھے۔ اس دور کے کسی نوجوان کا مقصدِ زندگی اگر غلامی سے آزادی ہوگا تو وہ ارفع ترین مقصد ہوگا چاہے اُس عہد کے اشرافیہ کے نزدیک وہ ایک ادنیٰ مقصد ٹھہرایا جائے۔ لیکن اشرافیہ کا وہ فرد جس کا غلام زنجیریں توڑ کر بھاگ گیا اپنے دل میں اس کی شجاعت اور ہمّت کی داد دیے بغیر نہ رہ سکے گا، بھلے اُسے پکڑنے پر اُس کا پاؤں ہی کیوں نہ کاٹ ڈالے۔ یہ ہے وہ عالمگیر قوتِ خیر جو شر میں بھی کارفرما رہتی ہے۔ اسی عالمگیر صلاحیت کے تحت ارفع و ادنیٰ مقرر ہوتے ہیں اور اعلیٰ سے اعلیٰ اخلاقیات وجود میں آتی ہے۔ شجاعت، صداقت، برداشت۔۔۔۔۔۔۔۔یہ وہ اقدار ہیں جو ہپّیوں کے جزیرے پر بھی اپنی اہمیت نہیں کھوتیں۔
سو بچپن سے ہی ’’نیچر‘‘ ہماری خواہشات کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارے سامنے مختلف مراحل میں مختلف مقاصدِ حیات رکھتی چلی آتی ہے۔ ادکاری کا شوق، افسربننے کا شوق، شادی کا شوق، کاروبار میں کامیابی کا شوق۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب شوق ۔۔۔۔۔۔ دراصل وہ مقاصد ہیں جو ارتقائے حیات کی گھنے درختوں سے اٹی سرسبزوشاداب سڑک پر ہماری رہنمائی کرتے اور ہمیں زندہ رکھتے ہیں۔ ان مقاصد کی برآوری انسانیت کے سروائیول (تمکّن) کی واحد ذمہ دار ہے۔ انسانی معاشرے کا کارواں رواں دواں رہتاہے اور یہ جبلت اِس نوع کو ختم ہونے سے بچائے رکھتی ہے۔
اسی سفر کے دوران اقدار تخلیق ہوتی ہیں۔ بہادری کے پیمانے، غیرت کے تقاضے، سچ بولنے والے کی عزّت، بڑاپن، حوصلہ، برداشت غرض ’’صبر‘‘ کے ساری شکلیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر یہ اقدار بعضوں کے لیے مقاصدِ حیات بن جاتی ہیں۔ وہ شادی، کاروبار، حصول ِ دولت جیسے مقاصد پر بھی اقدار کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔ حالانکہ یہی مقاصد تھے جنہوں نے اُن اقدار کو جنم دیا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں دونوں ’’سطحات‘‘ کا تنازع جنم لیتاہے۔ لیکن بظاہر سروائیول کی جبلت ہمیشہ جیتتی ہے اور اقدار والے ہمیشہ ہار جاتے ہیں۔
کوئی سمجھدار ہستی تو ہے اِس سب کے پیچھےورنہ اعلیٰ اقدار سروائیول کے راستے میں کیوں آئیں؟ اچھا!!!۔۔۔۔۔۔۔ مان لیا کہ سروائیول کی انسٹنکٹ کا نتیجہ تھیں تو پھر شجاعت، صداقت، دیانت، امانت، ہمدری، ایثار، محبت ہی کیوں؟ ۔۔۔۔۔۔۔ کوئی ہستی تو ہے اس سروائیول کی کہانی کے پیچھے جو نیچر میں ہی کہیں کسی حجاب کے پیچھے سے ہمیں دیکھ رہی ہے۔ ایسی کوئی ہستی ہے تو ہمارے شعور کے لیے سب سے بڑا مقصد اسی ہستی کا کھوج ہوسکتاہے۔ اگر دیگر مقاصد ِ حیات میں دل لگا ہوا ہو تو جینا بالکل مشکل نہیں۔ لیکن جب دِل ہی نہ لگے کہیں تو پھر کوئی ایسا مقصد تلاش کرنا ناگزیر ہوجاتاہے جس میں دل لگے۔ دل لگے تاکہ جیا جاسکے۔ کیونکہ مقصدکے بغیر انسان کی عملی زندگی دراصل ایک بہت خوفناک موت ہے۔
فلسفے میں ایگزسٹینشلزم اور نِہِلزم انسانی زندگی کی اِسی بے مقصدیت سے حقیقی آگاہی کے بعد وجود میں آئے ہیں۔ لیکن وہ اس سارے معاملے کو دیکھنے کا ایک اور پہلُو ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے اوپر کہا میرا مدعا ڈیزائن آرگومنٹ کی طرف جانا نہیں ہے۔ البتہ ایگزسٹنشلزم پر میں نے ایک چھوٹا سا آرٹیکل لکھا تھا۔ فقط تعارفی قسم کا۔ وہ بھی فیس بک پر ہی دستیاب ہے۔
ادریس آزاد