ڈِیلیڈ چوائس کوانٹم ایریزر
کوانٹم فزکس نے جس قدر عجیب الخلقت تصورات کو متعارف کروایا ہے اتنے تو کبھی مذہب نے بھی نہ کہے تھے ! مثلاً صرف ایک مثال،
"Measurement in future causes particle to act differently in the past”
Delayed choice quantum eraser
یعنی،
جب ڈبل سلٹ کے اِس پار پیمائش کرنے والا آلہ رکھا جائے تو رزلٹ ڈفرنٹ آتاہے۔ سائنسدانوں نے الیکٹران کو دھوکا دیا اور ڈبل سلٹ کے اُس پار یعنی دوسری طرف پیمائش کرنے والا آلہ لگا دیا۔ تب کیا ہوا کہ رزلٹ وہی تھا یعنی الیکٹران کا رویّہ ایسا تھا جیسے اُسے معلوم ہو کہ اُسے دیکھا جارہاہے۔ جس سے ڈیلیڈ چوائس کوانٹم ایریزر(Delayed choice quantum erase) کا کانسیپٹ متعارف ہوا یعنی جیسے الیکٹران نے سلِٹ (Slit) سے گزرنے کے بعد آلے کو دیکھا ہو تو دوبارہ واپس جانے اور دوبارہ سے سلِٹس میں سے گزرنے کا فیصلہ کیا ہو۔ اس لیے ’’ڈی لیڈ چوائس کوانٹم اِریزر‘‘ کے تصور کے مطابق، ’’مستقبل میں کی گئی پیمائش پارٹکل کے لیے ماضی میں جاکر اپنا فیصلہ بدلنے اور مختلف طریقے سے پیش آنے کا موجب بنی‘‘۔
سو جب سوال کیا جائے کہ یہ سب تو مذہب کے دعووں سے بڑھ کر عجیب اور کاؤنٹر اِنٹیوٹیو (Counter intuitive) ہے،
تو جواب آتا ہے کہ کوانٹم کو کم از کم میتھس سے تو ثابت کیا جاسکتاہے، جو دنیا کی مضبوط ترین لاجک سمجھی جاتی ہے۔ مذہبی عقائد کو ثابت کرنے کے لیے لاجک کہاں سے لائی جائیگی؟
لیکن پھر ایک طویل خاموشی کے بعد خیال آتاہے کہ وہ لاجک جو کوانٹم لائی ہے۔ اہل ِ مذہب چاہیں تو بڑے آرام سے استعمال کرسکتے ہیں اور انہیں کوئی ملعون ٹھہرائے گا تو مغالطہ کریگا جب تک مذہب ایک مشہور فیلسی یعنی "سٹولن کانسیپٹ” کُمِٹ نہ کرے مطلب یہ کہ کوانٹم کے عقائد سے کوانٹم کو باطل ٹھہرانے کی غلطی نہ کرے تو کوئی حرج نہیں کہ مذہب کوانٹم کے استدلال کو اپنے مدلولات کا حصہ بنالے۔ یہ عین لاجیکل ہے۔