قصورواروالدین کے بے قصور بچے
ہم بچے پیدا کرتے ہیں تو عین حیاتیاتی طریقےپر، جیسے تمام کے تمام جاندارکرتےہیں۔ انسانوں کے لیے کوئی خاص اخلاقی ضابطہ، فطرت نے وضع کیا اور نہ ہی کسی مذہب نے کہ اِس طریقے سے بچے پیدا کرو! مردعورت کا جوڑا بنتاہے، یاہماری زبان میں کہیں تو شادی ہوتی ہے اور پھر اس کے بعد آنے والے شب و روز میں اُن دونوں کے درمیان جسمانی و ذہنی قربت کے مختلف مواقع آتے رہتے ہیں۔ ان مواقع میں وہ عین حیاتیاتی طریقے پر، وقت کے کسی لمحے میں اچانک، والدین بن جاتے ہیں۔ بالکل عام جانداروں کی طرح۔ کچھ بھی مختلف نہیں ہوتا۔ کچھ بھی الوہیاتی واقعہ پیش نہیں آتا۔ الغرض والدین زندگی کے جس لطف اور سرشاری کو کشید کرنے کے لیے جوڑا بنے ہوتے ہیں، اُسی لطف کے حصول کے دوران وہ اچانک ایک دن والدین بن جاتے ہیں۔ یوں گویا آنے والے بچے اپنے والدین کی مرضی سے نہیں بلکہ حادثاتی طورپر پیداہوتے ہیں۔ کہنے کو یہ کہا جاسکتاہے کہ یہ دعویٰ ’’عمومیت‘‘ کے مغالطے کا شکار ہے۔ یعنی بہت زیادہ جنرلائز کرلیا گیاہے اور یہ کہ بے شمار والدین اپنی خواہش اور مرضی بلکہ کتنے ہی قصوں میں شدید کوشش سے والدین بنتے ہیں اور اس لیے یوں نہیں کہاجاسکتا کہ اُن کی پیدائش والدین کی مرضی سے نہیں ہوئی۔
لیکن یہ مغالطہ درست نہیں ہے۔ یعنی یہ مغالطہ مذکورہ بالا دعوے کو فی الاصل رد نہیں کرتا۔ کیونکہ بے شک بعض والدین اولاد کی خواہش میں کسی پیرفقیر اور ڈاکٹر کا دروازہ بن کھٹکائے واپس نہیں پلٹتے۔ لیکن اس سائنسی حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ وہ جس اولاد کی خواہش رکھتے ہیں، وہ خواہش بھی مکمل طورپر حیاتیاتی ہے۔ وہ جانور نہیں انسان ہیں اس لیے فطرت میں ان کے ملاپ کے لیے خوشبوئیں یا سہانے گِیت نہیں رکھے گئے بلکہ قوتِ خیال رکھی گئی ہے۔ یوں گویا ان کے بچوں کی پیدائش بھی سوفیصد حادثہ ہے۔
اُن کے بچے ایک تجربہ ہوتے ہیں جو زمانے کی اِس تجربہ گاہ میں اپنے والدین سے کسی حادثے کی طرح سرزد ہوجاتے ہیں۔ انہیں رحم مادر میں کسی سوچی سمجھی سکیم کے تحت نہیں رکھاجاتا بلکہ انہیں رحم ِ مادر میں یوں پھینک دیا گیا ہوتاہے جیسے احسن الخالقین عجلت میں ہو یا جیسے زمین پر زمین تنگ آرہی ہو۔ وہ ایک مدت تک غلاظت کے زندان میں اپنی کمزور ماں کا لہُو پی پی کر جیتے رہتے ہیں اور پھر ایک دن تجربہ گاہ میں کسی حادثے کی طرح رونما ہوجاتے ہیں۔ اگر باپ جابر ہو اور ماں مجبور ہو یا ماں جابرہ ہو اور باپ مجبور ہو تو تو اُن کے والدین کی روحیں ایک دوسرے سےدُور دُور رہتی ہیں۔ ایسے لمحات میں ٹھہرنے والے حمل سے پیدا ہونے والے بچوں کی قسمت میں عمر بھر کی بے چینیاں، بے خوابیاں، سیلانیاں اور بے تابیاں ہی ہوتی ہیں۔ وہ تمام عمر ایک ناکام تجربے کی طرح زندہ رہتے ہیں۔ اُن پر یہ زمین ہمیشہ تنگ رہتی ہے یا وہ اِس زمین پر ہمیشہ تنگ رہتے ہیں۔ وہ تمام عمر کسی اور کے غلط فیصلے کی سزا بھگتتے ہیں اور اگر ایسا نہیں تو پھر تقدیر کا ہرفیصلہ ہی غلط ہوتاہے۔ ان کے والدین کا تجربہ مکمل ہوتا ہے تووہ گویا جوان ہوچکے ہوتے ہیں۔ تب والدین کو معلوم پڑتاہے کہ ان کی تمام ترخواہشات، سوچیں، شوق، سب کچھ اکارت گیا اور ان کی ساری محنت بشمول ڈاکٹروں یا پیروں فقیروں کے چکر، سب کی سب ضائع اور رائیگاں چلی گئی۔
اس سارے منظر میں کہیں بھی اولاد قصور وار نہیں ہوتی۔ ہرہرقدم پر صرف والدین ہی قصور وار ہوتے ہیں۔ لیکن وہ بھی چونکہ عام جانوروں کی طرح اپنی طبعی خواہش اور جبلت سے مجبور تھے اور اس لیے ان سے یہ غلطی سرزد ہوگئی تھی چنانچہ نظریات، مذاہب اور قوانین ِ عالم اُنہیں، اُن کی اس غلطی کے لیے معاف کردیتے ہیں اور اُن کی اولادوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اُن پر احسان کریں کیونکہ جب تم چھوٹے تھے تو وہ تمہارا خیال رکھتے تھے۔ اُن پر احسان کریں اور ان کے ساتھ اچھا سلوک رکھیں اور اگر وہ ضعیف العمر ہوجائیں تو ان کے سامنے اُف تک نہ کریں! مذاہب، نظریات اور قوانین ِ عالم تو انہیں معاف کردیتے ہیں لیکن فطرت انہیں معاف نہیں کرتی۔ وہ جو غلطی کرچُکتے ہیں، اس کا سلسلہ چل نکلتاہے جو کہیں ختم نہیں ہوتا اور وہ اپنے گناہوں کے بوجھ تلے دبے، کھانستے، سسکتے، آہتے، کراہتے بالآخر اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔
چنانچہ والدین کا یہ خیال کہ انہیں اپنے بچوں کی تربیت کرنا چاہیے چاہے سختی بھی کرنا پڑے، اُن کے سابقہ اعمال کی روشنی میں نہایت بودا اور غیر منطقی ہوتاہے۔ سچ تو یہ ہے اور فطرت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ بچہ پیدا کرنے کی غلطی کرچکے ہیں سو اب اُن پر لازم ہے کہ جس انسان کو اُس کی اجازت کے بغیر اس تکلیف دہ دنیا میں لے آئے ہیں، اب اُس کے ساتھ برتاؤ بھی ایک آزاد جاندار کا سا کریں جسے اِس سیّارۂ زمین پر اپنی مرضی اور خوشی سے رہنے کا اُتنا ہی حق ہے جتنا کہ کسی کیڑے مکوڑے یا گدھے گھوڑے کو ہے۔ منطقی اعتبار سے اُنہیں اپنے بچوں کو سکول بھیجنا چاہیے اور نہ ہی گھر پر قاری صاحب کو بلا کر ان کے دین و آخرت کی فکر کرنا چاہیے۔ وہ اگر اپنی غلطی کا کچھ ازالہ کرسکتے ہیں تو فقط یہ کہ وہ بچوں سے ان کا بچپن نہ چھینیں۔ اُنہیں کھل کر کھانے پینے، کھیلنے کودنے، لڑنے جھگڑنے، شورمچانے، مرضی سے سونے جاگنے اور بےپرواہی اور بے فکری سے جینے دیں۔ ٹی وی دیکھنے دیں، گیمیں کھیلنے دیں۔ بغیر پڑھائی کے بڑا ہونے دیں۔ بغیر تعلیم وتربیت کی مشقت میں مبتلا کیے آزادی کے ساتھ جوان ہونے دیں۔ کچھ کرسکتے ہیں تو ان کے سامنے انسان بن کر رہیں تاکہ وہ جوان ہوں تو کم ازکم انسان ہوں۔
اوپر جو کچھ میں نے لکھا، یہ سب منطقی اعتبار سے درست ہے۔ بطورِ خاص مشل فوکو اور جان سٹورٹ مِل جیسے فلسفیوں نے ایسے نظریات کی بھرپورتائید کی ہے۔ جوبات منطقی اعتبار سے درست ہو اس پر جذباتی اعتبار سے درست باتوں کو ترجیح نہیں دی جاسکتی۔ ایسی صورت میں ہمارے پاس یعنی ہم مہذب انسانوں کے پاس اس سنگین ترین مسئلے کا کیا حل بچ جاتاہے؟ فقط یہ کہ تہذیب خود اپنا قبلہ درست کرے۔ تعلیم و تربیت کے نظام کو بند دڑبوں سے نکال باہر کرے۔ معاشرے میں اور گھروں میں اپنی پسندیدہ اخلاقیات کا جال ایسے طریقے پر بچھائے کہ بڑے ہوتے ہوئے بچے بغیر خود کو قیدی محسوس کیے، اس جال میں پھنستے چلے جائیں۔ والدین کو کوئی حق نہیں کہ وہ کسی انسان سے اس کی زندگی کے پندرہ بہترین سال چھین لیں۔ ایسے بہترین سال کہ جن میں بچے نہ تو اتنا بیمار ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں کوئی ٹینشن ٹینشن محسوس ہوتی ہے بشرطیکہ اُنہیں والدین ٹینشن نہ دیں۔ ایسے بہترین سال تعلیم و تربیت کے نام پر چھین لینے کا حق اُن دو انسانوں کو نہیں سونپا جاسکتا جو اپنی خوشی، اپنے لطف اور اپنی تسکین کے لیے اس تکلیف دہ دنیا میں مزید انسانوں کو لانے کا باعث بنتے ہیں۔ سوفرض عائد ہوجاتا ہے تہذیب پر، کہ وہ خاموش طریقے سے اپنی پسندیدہ اخلاقیات کا جال بچھائے اور ایسا جال بچھادے کہ بڑے ہوتے ہوئے بچے جب بڑے ہوں تو وہ ان پڑھ نہ رہ گئے ہوں اور نہ ہی اپنی تہذیب کی پسندیدہ اخلاقیات سے عاری۔
ادریس آزاد